|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2020

بلوچستان میں سیاسی فرسٹریشن موجود ہے جس کی وجہ سے بلوچ عوام سراپا احتجاج ہیں۔کوئی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے احتجاج میں مصروف ہے تو کوئی جبری برطرفی کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔ تو کوئی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے صدائے احتجاج بلندکررہا ہے۔دراصل سیاسی فرسٹریشن کے پیچھے بیڈگورننس ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان کے عوام کو پسماندہ رکھنے کیلئے ظلم و جبر، سماجی ناانصافیوں کی پالیسیوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے عوام زندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

اس سیاسی بے چینی نے بلوچستان میں ایک سیاسی شعور کو جنم دیا۔ اس سیاسی شعور نے عوام کواپنے حقوق کے حصول کے لئے بیدار کردیا۔آج بلوچ معاشرے میں ایک مضبوط سیاسی کلچر موجود ہے جس سے عوام باشعور ہوچکی ہے۔ وہ انسانی حقوق کی پامالی، قومی اور طبقاقی جبر سمیت دیگر سماجی برائیوں سے آگاہ ہیں جس کی وجہ سے عوام بھوک ہڑتال، پرامن ریلیاں، پہیہ جام ہڑتال، پیدل مارچ سمیت دیگر نوعیت کے احتجاج اپنائے ہوئے ہیں۔بلوچستان میں گزشتہ چند برسوں سے لوگوں کا اپنے مسائل کے حل کے لیے پیدل لانگ مارچ کے رحجان میں اضافہ ہو ا ہے۔

ایک شہر سے دوسرے شہر، یا ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک پیدل مارچ کیا جارہا ہے جس میں مردوں کے دوش بدوش خواتین اور بچے بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ خواتین اور بچوں نے بلوچ مزاحمتی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔حال ہی میں پروین میر نامی سماجی کارکن نے اپنے آبائی علاقے اوستہ محمد سے کوئٹہ تک پیدل مارچ کیا۔ اوستہ محمد سے کوئٹہ کا فاصلہ 350 کلومیٹر ہے۔ یہ مارچ کٹھن تھاتاہم انہوں نے تمام تر تکالیف اور مشکلات کے باوجود یہ مارچ کیا۔

اس مارچ کا مقصد اوستہ محمد کو ضلع کا درجہ دینا، وہاں گرلز کالج اور یونیورسٹی کا قیام، کھیر تھر کنال پر سیاسی مداخلت کا خاتمہ، اوستہ محمد میں صحت کی سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ سیوریج کی نظام کی بہتری جیسے مطالبات تھے۔ اوستہ محمد کی آبادی پانچ لاکھ ہے جہاں گرلز کالج نہیں ہے۔ جس کے باعث وہاں کی خواتین میٹرک کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتیں۔پیدل مارچ کرنے والی پروین میر نے اپنے کے علاقے میں یونیورسٹی قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

اسی طرح بلوچستان کے مرکزی شاہراہوں پر موت کے رقص نے بھی عوام کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کردیا۔ یہ اموات حکومتی ناقص انتظامات کی وجہ سے ہورہی ہیں۔حکومت براہِ راست ان اموات کی ذمہ دار ہے کیونکہ بلوچستان کی تمام مرکزی شاہراہوں کو دو رویہ ہونا چاہئے تھا۔اردگرد میں کوئی ٹراما سینٹر موجود نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ شاہراہوں پر موت کے رقص کے خلاف بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی نامی ایک سماجی تنظیم سراپا احتجاج ہے۔اس سلسلے میں سوسائٹی کے عہدیداروں نے کراچی ٹو کوئٹہ پیدل لانگ مارچ شروع کیا۔

جب وہ وڈھ تک پہنچے تو کورونا کی وجہ سے انہیں پیدل مارچ کو موخرکرنا پڑا۔ اس دوران این ایچ اے حکام کی جانب سے ان کے ساتھ رابطہ کیا گیا کہ مارچ ختم کیا جائے ،ان کے مطالبات پر عملدرآمد شروع کیا جائے گا مگر مارچ ختم کرنے کے بعد ابھی تک کسی بھی شاہراہ پر کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق رواں سال کے دوران بلوچستان کے مرکزی شاہراہوں پر 5600 روڈ حادثات میں 790 افراد شہید جبکہ 8 ہزار 500زخمی ہوگئے۔

اسی طرح گزشتہ ماہ بلوچ اسٹوڈنس کونسل ملتان کی جانب سے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں بلوچستان کی طلباء کے اسکالر شپس کا خاتمہ، فیس وصولی پالیسیوں اور ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقوں کے طلباء کے لیے نشستوں کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کیا۔ طلبا ء نے ملتان سے اسلام آباد تک مارچ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ بارہ دن کے مارچ کے بعد لاہور میں داخل ہوگئے۔ جہاں انہوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا۔ ان کا یہ احتجاج رنگ لے آیا اور مطالبات تسلیم کرلئے گئے۔

بلوچ سیاست میں پیدل مارچ کا سہرا ماما عبدالقدیر بلوچ کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا تھا۔ ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں لانگ مارچ کے شرء کا پہلے پیدل کراچی پہنچے۔ کراچی میں چند روز قیام کے بعد اسلام آباد کے لیے مارچ شروع کیاگیا۔ اس مارچ میں خواتین کے علاوہ ایک دس سالہ بچہ علی حیدر بلوچ بھی شامل تھا جس نے اپنے والد محمد رمضان کی بازیابی کے لیے اس مارچ میں شرکت کی تھی۔

کوئٹہ سے براستہ کراچی، اسلام آباد تک مارچ میں شریک افراد کو لگ بھگ چار مہینے لگے تھے۔ یہ دنیا کی سب سے طویل مارچ تھا۔ مگر بدقسمتی سے تمام بلوچ سیاسی لاپتہ افراد کی بازیابی تو کجا بلکہ لانگ مارچ کے شرکاء کے خاندان سے تعلق رکھنے والوں کو بھی نہیں چھوڑاگیا۔تاہم اس مارچ نے بلوچ ایشو کو دنیا کے سامنے اجاگر کروایا۔حال ہی میں سندھی اور بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے ایک پیدل مارچ کا آغاز کردیا ہے جو کراچی سے راولپنڈی تک جائیگا جس کی قیادت سندھ سبھا کے رہنما انعام عباسی سمیت معروف انسانی حقوق کے کارکن ہانی گل بلوچ۔

شازیہ چانڈیو،فیصل آرا، سمیت عاطف چانڈیو،ڈاکٹر فتح محمد کھوسو اور دیگر درجنوں لاپتہ افراد کے لواحقین کررہے ہیں۔ ہانی بلوچ اپنے منگیتر نسیم بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کررہی ہیں۔ اس وقت پیدل مارچ کے شرکاء سندھ کے مختلف شہروں اور قصبوں سے ہوتا ہوا راولپنڈی کی جانب رواں دواں ہیں۔ سندھ کے عوام ان کا استقبال کررہے ہیں۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ گولی سے نہیں۔ مذاکرات سے حل ہوگا۔ اس مسئلے کا واحد حل سیاسی مذاکرات ہیں۔ مذاکرات کے ذریعے ہی حکمران، بلوچستان کے سیاسی و قومی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہونگے۔