اسلام آباد: مولانا فضل الرحمان ہوں یا مریم یا پھر کرونا کو شکست دینے والے بلاول ہوں یا محمود خان یا اختر مینگل کی ویڈیو شرکت یا میاں افتخار کی موجودگی میں اس اہم اجلاس کا تھا سب کو انتظار کیا مریم کے لاہور کے پرجوش استعفوں کے اعلان کی حتمی منظوری پی ڈی ایم دیگی یا اسلام آباد پر پی ڈی ایم کے دھاوا بولنے کا حتمی اعلان کیا جائیگا لگ بھگ پانچ گھنٹے تک سارے سیاسی رہنماؤں نے طویل بحث مباحثوں کیا نواز شریف اور آصف علی زرداری جنکے۔
ایک ہفتے میں چار بار رابطے ہوئے انکی ویڈیو لنک پر موجودگی رہی تاہم جو خیال اخذ کئے جارہے تھے اس حوالے سے کوئی اعلان کیوں نہ ہوسکا اس پر آزادی نے اجلاس کی اندرونی کہانی حاصل کرلی اجلاس میں موجود زرائع کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی قیادت فوری استعفی دینے پر مصر تھی تاکہ دبائو بڑھایا جاسکے اس اجلاس میں موجود ایک اہم شخصیت نے بتایا کہ پی پی پی زرداری اینڈ کمپنی سمیت دیگر رہنمائوں کا ماننا تھا کہ عوام کو متحرک کیا جائے۔
عوام کو سڑکوں پر لایا جائے اسکے بغیر استعفی کا آپشن استعمال کرنا بے سود ہوگا لگ بھگ پانچ گھنٹے تک جاری اجلاس کی پریس کانفرنس پانچ منٹ تک محدود کیوں رہی سوائے مولانا فضل الرحمان کے نہ مریم بولیں نہ بلاول نے لب کھولے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ طے ہوا کہ ن لیگ مینار پاکستان پر عوام کا جم غفیر اکھٹا کرے اسکا ٹاسک لاہور جلسے کی میزبان ن لیگ کو دیا گیا کیونکہ دیگر جماعتیں اس جلسے کی مہمان جماعتیں ہونگی اگر لاہور کا جلسہ کامیاب ہوتا ہے۔
تو اسکے بعد اسلام آباد کی طرف سیاسی پیش قدمی یعنی لانگ مارچ کا حتمی اعلان کیا جاسکے ذرائع کا کہنا ہیاس اجلاس میں مائنس ون یا عدم اعتماد کی تحریک کے بجائے اب پی ڈی ایم کا ہدف ممکنہ طور پر عوامی دبائو یا ایک بڑی عوامی اجتماع اسلام آباد میں اکھٹا کرنا ہے سردی کے موسم میں دس سے بیس روز کا انتظام کرکے کم از کم ایک لاکھ لوگ اسلام آباد پہنچائے جائیں مولانا فضل الرحمان سمیت پی ڈی ایم کی قیادت کی ایک اور سیاسی بیٹھک آئندہ چوبیس گھنٹوں میں ہونے کا امکان ہے۔
جس کا میڈیا پر چرچا نہیں ہوگا اپوزیشن کا بڑا امتحان لاہور کے جلسے کی کامیابی اور اسکے بعد لانگ مارچ میں عوام کا ٹھاٹھیں اور پھر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے اعلانات پر منحصر ہوگا تاہم ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ پی ڈی ایم کے کچھ رہنماء حکومت کے مذاکرات کے دعوت کو مسترد کررہی ہے وہیں اتحاد کے اندر موجود کچھ رہنماء یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کیلئے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس میں فیصلہ ساز ادارے شامل ہوں۔