|

وقتِ اشاعت :   January 13 – 2015

بعض حلقے اکثر یہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں تناسب آبادی میں تبدیلی کی سازش کررہا ہے اور مقامی کشمیری اور ان کے رہنما ء اس کی مزاحمت کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کشمیری عوام دوست قوتیں اس کو دوسرا فلسطین بننے نہیں دیں گے جہاں پر دنیا بھر کے یہودیوں کو لاکر آباد کیا گیا تھا۔ حکومت پاکستان اور ملک کے اندر تمام سیاسی جماعتیں ان کشمیریوں کی حمایت کررہے ہیں جو کہ تناسب آبادی میں تبدیلی کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ کشمیر صرف اور صرف کشمیریوں کا ہے اس پر کسی دوسرے کا حق نہیں ہے۔ پاکستان میں دو اہم ترین صوبے بلوچستان اور سندھ بھی اسی سازش کا شکار ہیں طاقتور قوتیں اور طبقات ایسی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں کہ بلوچوں کو بلوچستان میں اور سندھیوں کو سندھ میں اقلیت میں تبدیل کیا جائے کیونکہ بلوچ اور سندھی موجودہ ریاستی ڈھانچے میں مختلف نظریات اور خیالات رکھتے ہیں۔ بھارت سے آنے والے لاکھوں پناہ گزینوں کو ایک سازش کے تحت سندھ اور سندھ کے مخصوص علاقوں میں آباد کیا گیا تاکہ سندھیوں کے آبادی کی تناسب میں ایک واضح تبدیلی لائی جائے اور سندھیوں کو سندھ کے اندر اقلیت میں تبدیل کیا جائے تاکہ وہ اپنے ہی وطن میں اچھوتوں کی سی زندگی بسر کریں اور ان سے وہ تمام جمہوری اور شہری حقوق چھین لیے جائیں جس کی وجہ سے وہ اپنی دھرتی کے مالک ہیں۔ اگر بھارت سے آنے والے پناہ گزینوں کو برابری کی بنیاد پر ملک کے تمام علاقوں میں آباد کیا جاتا تو سندھ پر آج آبادی کا موجودہ دباؤ نہ ہوتا۔ اس کے بعد مقتدرہ نے بنگالیوں کو بھی لاکھوں کی تعداد میں کراچی اور اس کے گرد و نواح میں آباد کیا جس سے سندھ پر آبادی کا دباؤ مزید بڑھ گیا۔ مزید برآں یہ کہ کراچی واحد صنعتی اور تجارتی شہر تھا اس لئے کے پی کے، فاٹا اور پنجاب سے کروڑوں افراد سندھ آئے اور یہاں بود و باش اختیار کی۔ اب تو برما کے مسلمان بھی تین ممالک کی سرحدیں پار کرکے کراچی آرہے ہیں ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ سرحدی محافظ رشوتیں لے کر برمی مسلمانوں کو کراچی آنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحدیں عبور کرکے کراچی آرہے ہیں۔ کوئی پنجاب نہیں جارہا کیونکہ مقتدرہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ بھارت، بنگلہ دیش اور برما سے مسلسل آبادی کے انخلاء کا رخ پنجاب کی طرف ہوجائے۔ چونکہ سندھ اور بلوچستان دو لاوارث صوبے ہیں جہاں پر ان کو آباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ افغان خانہ جنگی کے دوران افغان مجاہدین اور مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں بلوچستان اور سندھ میں بسائے گئے۔ بلوچستان میں تو اس کو جنگی حکمت عملی کا حصہ بنایا گیا اور کراچی میں ڈرگ مافیا اور ہیروئن اور اسلحہ کی اسمگلنگ کے لیے افغان مہاجرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ بلوچستان چونکہ پاکستان میں سب سے کم ترین آبادی والا صوبہ ہے اس لئے افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کی بناء پر اس کی آبادی کے تناسب کو آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی اور قومی رہنماؤں کا یہ جائز مطالبہ ہے کہ پہلے افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو واپس افغانستان بھیجا جائے اور بعد میں بلوچستان میں مردم شماری کی جائے۔ بعض حضرات اور دانشور یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ بلوچستان میں موجود تمام افغان مفتوحہ علاقوں کو فاٹا میں شامل کیا جائے اور فاٹا میں میں ایک ایجنسی بنائی جائے تاکہ افغانستان کے تمام مفتوحہ علاقے ایک جگہ جمع ہوں اور ممکن ہو تو ان کے لیے ایک نیا صوبہ بنایا جائے اگر وہ موجودہ کے پی کے میں رہنا پسند نہیں کرتے ۔یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بلوچستان اور سندھ میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی نہ صرف مخالفت کریں بلکہ ان تمام لوگوں کو اپنے اپنے وطن واپس جانے پر مجبور کیا جائے کیونکہ سندھ اور بلوچستان ان کا وطن نہیں ہے۔ سندھ ناقابل تقسیم ہے، وجہ صرف یہ ہے کہ سندھ کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ سندھ کی اسمبلی نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ پاکستان یا وفاق پاکستان نے سندھ صوبہ تشکیل نہیں دیا تھا۔ اس لئے سندھ قابل تقسیم نہیں ہے۔ اگر کسی نے یہ کوشش کی تو یہ صرف اور صرف پاکستان اور اس کی سالمیت پر حملہ ہوگا۔ پاکستان کے وجود کا جواز اس وقت ختم ہوجائے گا جب سندھ کی تقسیم کی بات کی جائے گی اور نہ ہی سندھ میں زون بنائے جاسکتے ہیں ۔سندھ کی سالمیت سندھی قوم کی ملکیت ہے کسی دوسرے کی نہیں۔ یہاں جو بھی رہے گا صرف اور صرف سندھی بن کر رہے گا۔ کوئی دوسری شناخت اختیار نہیں کرسکتا۔ یہ سندھ اور اس کی سرزمین کے خلاف غداری ہوگی۔ لہٰذا سندھ اور بلوچستان میں موجود غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان کو واپس اپنے گھروں کو روانہ کیا جائے اور ان کے تمام جمہوری اور شہری حقوق سلب کیے جائیں تاوقتیکہ وہ سندھی قومیت اختیار نہ کریں اور سندھ کے مفادات کی نگرانی کا حلف نہ اٹھائیں۔ اور مقتدرہ بلوچستان میں بھی مقیم افغان مہاجرین کو( بلوچوں سے بغض معاویہ میں) اثاثہ سمجھنا چھوڑ دیں اور انہیں با عزت طریقے سے ان کے وطن واپس بھجوانے کا بندوبست کرے۔اور اس سلسلے میں کوئی دباؤ اور بلیک میلنگ کو خاطر میں نہ لائے جو یہاں کی ایک سیاسی جماعت ان افغان مہاجرین کو بلوچستان میں بسانے کے لیے آئے دن کرتی رہتی ہے۔ ان سرکاری لوگوں کا بھی احتساب ہونا چائیے جنہوں نے ان افغان مہاجرین کو رشوت لے کر شناختی کارڈاور دیگر دستاویزات بنا کر دئیے۔ظلم تو یہ ہے کہ بلوچستان کی مقامی بلوچ آبادی کو شناختی کارڈ بنوانے کے سلسلے میں نادرا فسران کی طرف سے کئی اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کافی کوفت اٹھانی پڑتی ہے لیکن افغان مہاجرین کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پیسے کی چمک کی بنیاد پر دنوں کے اندر اندر بن جاتے ہیں اور وہ ان دستاویزات کی بنیاد پرپاکستانیبن کر ملک بھر میں دندناتے پھرتے ہیں اور ملک کا امن و سکون غارت کر کے رکھ دیتے ہیں۔