|

وقتِ اشاعت :   December 12 – 2020

تمام پڑھنے والوں کو سلال کے سلام کے ساتھ معزرت کہ ایک طویل عرصے بعد تحریر نویسی کررہا ہوں، کچھ تعلیمی و زاتی مصروفیات کے سبب ایک لمبا عرصہ قلم اور کاغذ سے دوری رہی اور اس دورانیے میں جن دوستوں نے مختلف محافل اور دیگر ذرائع سے وجوہات بھی پوچھیں ان سب کا تہہ دل سے شکریہ،چونکہ اس بار عنوان کچھ ایسا ہے تو سوچا کہ دیر نہ کروں کہ شاید کہ تحریر سے دل میں اتر جائے میری بات اور کسی کا بھلا ہوجائے،،تو آئیں سنتے ہیں ایک سچی کہانی، پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے ایک پڑھے لکھے گھرانے کی۔

لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے دوست بالخصوص مجھ سے سینئر اور بڑی عمر کے لوگ لسبیلہ کی ایک علم دوست شخصیت سے بخوبی آگاہ ہونگے جن کا لسبیلہ کی فلاح میں اپنی بساط کے مطابق ایک بڑا کردار رہا اور انہوں نے بہت سے محاذوں پر لسبیلہ کا نام روشن کیا بلاشبہ اس شخصیت کا نام لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے سابقہ بیوروکریٹ عبدالعزیز لاسی ہے، لاسی صاحب کا نام ایک خودساختہ اود اپنی محنت سے لسبیلہ کا نام روشن کرنے والے شخصیات میں شمار ہوتے ہیں، لاسی صاحب جیسے شخصیات سدوں میں یک پیدا ہوتے ہیں جو اپنے خداداد صلاحیتوں کے زریعے ملک، علاقہ و اپنے قوم کا نام روشن کرتے ہیں۔

انہوں نے اپنے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور بیوروکریسی میں بطور نائب تحصیلدار اپنے فرائض کا آغاز کیا اور اپنی سروس کے اختتام میں بطور کمشنر نصیرآباد ڈویژن، سیکرٹری پی ایند ڈی، سیکرٹری خوراک کے اعلیٰ عہدوں پر فائض رہے،**لاسی صاحب کی اپنی سروس کے دوران اور بعد جام خاندان سے خصوصی قربت رہی بالخصوص سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام غلام قادر (مرحوم) و سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام میر محمد یوسف (مرحوم) سے خصوصی تعلقات رہے ، لاسی صاحب 2002 میں اپنی تمام تر خدمات اور یادوں کو دنیا ء فانی میں رکھ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

لاسی صاحب سے جو لوگ ملے وہ کہتے ہیں لاسی صاحب انتہائی شفیق ملنسار اور اپنے لوگوں کے لیے دلی درد رکھنے والے شخصیت تھے اور ہر طرح سے لوگوں کی رہنمائی کرکے ہرممکن تعاون کرتے، بلاشبہ ایسے شخصیات رحلت کے بعد بھی دلوں میں زندہ و انہیں ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہیجب لاسی صاحب وفات پاگئے تو ان کے خاندان کی کمان انکے بڑے فرزند طارق عزیز لاسی صاحب کے سپرد ہوئیں اور جب لاسی صاحب کی وفات ہوئی تب طارق عزیز ایک کم عمر نوجوان و طالبعلم تھے اور اچانک انکے کندھوں پر خاندان اور اپنی پڑھائی کی بھی بھاری ذمہ داری آگئی۔

طارق عزیز لاسی صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم کوئٹہ گرائمر اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم اسلام آباد کالج سے حاصل کی، گریجویشن کراچی سے اور ماسٹرز کی تعلیم قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے حاصل کی، ایک طرف تعلیم کو جاری رکھنا اور دوسری جانب خاندان کی ذمہ داریاں نبھانا ، یہ دو بھاری زمہ داریاں اس نوجوان کو آہستہ آہستہ ایک مضبوط انسان بناتے جارہے تھے، اور تعلیم کے ساتھ ساتھ طارق عزیز لاسی لسبیلہ انڈسٹری (لیڈا) میں بطور اسسٹنٹ منیجر اپنی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے، بلاشبہ ان دو زمہ داریوں کو ساتھ چلانا قدر مشکل ضرور تھا۔

لیکن اس کہنہ مشق محنتی نوجوان نے ہمت نہ ہاری اور ایک جنون جوش و بہتر حکمت عملیوں کے سبب نوکری کرکے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے تعلیم پر بھی خصوصی فوکس مرکوز رکھ کر دن رات ایک کرکے ایک نئے ولولے کے ساتھ ثابت قدمی کی جانب گامزن ہوتے رہے۔ اور اس جذبے کے ساتھ کہ مجھے کچھ بڑا کرنا ہے اور کہتے ہیں انسان کی محنت کے ساتھ والدین کی دعائیں اور ساتھ بھی ایک انسان کے لیے کامیابی کا ایک بڑا رستہ بنتی ہیں اور یہ نوجوان اس عظیم عورت کے سایے تلے پرورش پایا جس نے ہمیشہ ہر وقت اسے حوصلہ دے کر اس کا ساتھ دیا اور بلآخر ان تمام مشکلات کے بعد اللہ پاک کے فضل و کرم سے آسانیوں نے دستک دی ۔

بیشک ہر اندھیری رات کے بعد ایک روشن صبح ضرور طلوع ہوتا ہے اور منزل پر پہنچنے کی خوشی مسافت کی تھکاوٹ کو دور کرکے بندے کے اندر ایک نیا حوصلہ بخشتا ہیاور بالآخر وہ دن بھی آگیا جب اس نوجوان نے اللہ رب العزت کی کرم نوازی، اپنی والدہ کی دعاؤں اور اپنی محنت لگن جوش اور جزبے سے 2002 کے سی ایس ایس مقابلے کا امتحان پاس کرکے لسبیلہ کے واحد سی ایس ایس آفیسر بننے کا اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوکر اپنا، خاندان۔

ضلع لسبیلہ و بلوچستان کا نام روشن کر لیا۔ طارق عزیز لاسی اپنی سروس میں مختلف صوبوں و عہدوں پر فائض و حال میں بطور ایڈیشنل سکریٹری محکمہ خزانہ بلوچستان اپنے خدمات خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دہی میں مصروف عمل ہیں اور سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے اس عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ان کا رویہ اخلاق و ملنساری دیکھ کر بلوچستان بالخصوص لسبیلہ کو ان کے اندر ان کے عظیم والد کا عکس نظر آتا ہے۔اب آپ پڑھنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے اپنی تحریر کے لیے ان دو شخصیات کا انتخاب کیوں کیا اور آخر وہ کیا وجہ تھی جس نے مجھ قلم کشائی پر مجبور کیا ۔

بالکل یہ سوال ہے اور اسکا جواب دینا بھی میرا اخلاقی فرض ہے تو سنیئے وجہ یہ ہے کچھ مہینے قبل اس نوجوان طارق عزیز لاسی کا کسی آفیشل دورے سے لسبیلہ آنا ممکن ہوا تو انہوں نے میرا نمبر ڈھونڈ کر مجھ سے رابطہ کیا کہ سلال میں یہیں پہ ہوں آپ جلد از جلد نوجوان طبقہ گیدرنگ رکھو جس میں، میں سی ایس ایس کے حوالے سے انہیں گائیڈ اور موٹیویٹ کروں گا اور اس ایک ہی دن میں میں نے اپنی بساط کے مطابق یہ پروگرام ارینج کرنے کی مکمل کوشش کی اور الحمداللہ کامیاب رہا، پھر یہ سلسلہ یہاں تک نہیں رکا بلکہ اس تعلیم دوست نوجوان نے ڈی سی لسبیلہ سے ریکویسٹ کی کہ ان بچوں کے کے لیے کچھ کریں ۔

تو ڈی سی صاحب نے ہمارے لیے دو بڑے سی ایس ایس آگاہی سیمینار منعقد کروائے جن میں ایک لسبیلہ یونیورسٹی اور دوسری پروگرام حب میں منعقد ہوا جو کہ اس نوجوان کی تعلیم دوستی کا واضح ثبوت ہے اور گزشتہ دنوں میرا کسی زاتی کام سے کوئٹہ جانا ہوا تو اس بہانے طارق عزیز لاسی سے ملاقات کی شرف ممکن ہوئی اور ان سے ایک تفصیلی علمی نشست کا موقع عنایت ہوا اور اس نشست میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا کہ شاید وہ قابل بیان نہیں، اور عموماً اس قسم کے لوگ جو اتنی جدوجہد کے بعد ایسے مقام پر پہنچ کر عموماً اْن کا رویہ یکدم بدل جاتے ہیں۔

لیکن اس نوجوان کی سادگی اور شفقت کا کیا کہنا کہ جس پیار بھرے انداز سے مجھے تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں بریف کیا اور مجھے ایک پل کے لیے یہ لگا کہ جیسا میرا کوئی بڑا بھائی مجھے سمجھارہا ہو، اپنے علاقہ، اپنے لوگوں کے لیے انکی باتوں میں جو درد تھا وہ میں الفاظوں کی مالا میں پْر کرکے بیان نہیں کرسکتا۔وہ جس انداز سے کہہ رہے تھے کہ سلال میں بھی اسی مٹی سے ہوں اگر میں یہاں پہنچ سکتا ہوں تو اور کوئی کیوں نہیں اور یقین جانیے اس سوال میں جو سچائی درد اور اپنائیت تھی وہ الفاظوں میں بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیںکہنے کا مقصد بس اتنا سا ہے۔

کہ اگر ہمیں لسبیلہ اور بلوچستان کو آگے لے جانا یے تو اب ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہمیں ایک نہیں اور بھی کی طارق درکار ہیں جو اپنے محنت سے ترقی کرکے آگے آ کر ملک و قوم کا نام روشن کرکے مثبت کردار اد کریں۔مختصراً ان دو شخصیات کے بارے میں بتانے کا مقصد صرف اتنا سا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ لسبیلہ کو آگے بڑھنا ہوگا اور کچھ کرنا ہوگا، ہمارے پاس نوجوانوں یا قابلیت کی کوئی کمی نہیں لیکن اگر کمی ہے تو بس حوصلے جذبے اور جنون کی اور یہ حوصلہ جزبہ جنون ہمیں انہی شخصیات کی جدوجہد سے ملے گا جن کا زکر میں اپنے تحریر میں اوپر کرچکا ہوں، امید ہے اب آپ سب کو سمجھ آیا ہوگا کہ ان دو شخصیات کا انتخاب میں نے کیوں کیا؟

یہ سب لکھنے بتانے اور پٍڑھانے کا مقصد صرف اتنا سا ہے کہ اگر لسبیلہ کی سرزمین کا ایک سپوت اگر اتنا کچھ کرسکتا ہے تو میں اور آپ کیوں نہیںچلیں آئیں یہ عہد کریں کہ ہم تعلیم سے ہی تبدیلی کے سفر کا آغاز کرینگے، صرف اپنے لباس نہیں بلکہ اپنی سوچ میں بھی بدلاؤ لائینگے۔

اور کچھ کر دکھائینگے جیسا کہ اس نوجوان نے ممکن کر دکھایا،امید ہے میرے پڑھنے والے آج کچھ نہ کچھ سیکھے و سمجھے ہوں گے تو ان سے گزارش ہے کہ یہ جو آپ سیکھے یا سمجھے ہیں یہ کم از کم کسی ایک کو سکھا ئیں یا سمجھائیں تاکہ اس سفر کا آغاز یہیں سے ہوجائیں،آخر میں اس دعا اور امید کے ساتھ اجازت چاؤں گا کہ کم از کم اس تحریر اور قصے سے اللہ پاک کسی ایک انسان کی زندگی کو تبدیل کریں گے انشاء اللہ
کسی نے کیا خوب کہا ہے نہ
زرا سی نم ہو مٹی تو بڑی زرخیز ہوتی ہے
واسلام فی امان اللہ