|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2020

بلوچستان کئی اعتبار سے پاکستان کا نہایت منفرد صوبہ ہے۔یہ بلوچوں کا صوبہ ہے جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔ آثار قدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی ہوتی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات ملے ہیں۔ سکندر اعظم کے فتح سے قبل بلوچستان پر ایرانی سلطنت کی حکمرانی ہوتی تھی۔ اور ان کے اونٹ گھوڑے بہت مشہور تھے۔ بلوچ سرداروں کے گھوڑے دنیا بھر میں بہت مشہور تھے اور وہ اپنے گھوڑوں کو بہت عزیز رکھتے تھے۔

کوئی سردار جب انتقال کر جاتا تو اس کی گھوڑی کو اس کے ساتھ دفنا دیاجاتا تھا تاکہ سردار کی گھوڑی پہ کوئی اور سواری نہ کرسکے۔ حتیٰ کہ کچھ سرداروں کی وفات پہ ان کے کھانے پینے کی اشیاء گلاس برتن سونے چاندی کے زیورات سمیت ان کو دفنایا جاتا تھا۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ سپہ سالار جتنی کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔کچھ لالچ کے مارے لوگوں نے چند سال قبل کئی سپہ سالاروں کی قبرستانوں کی بے حرمتی کرکے کھودائی بھی کی تھی تاکہ ان سے زیورات کو نکالا جاسکے ، اس کھودائی کے نشانات آج بھی موجود ہیں جو ایک فسوسناک عمل ہے۔

بلوچستان میں چوکوری قبرستان کئی علاقوں میں موجود ہیں جن کی اکثریت سندھ اور بلوچستان میں ہیںِ یہ کتنے قدیم ہیںیہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ آج تک آثار قدیمہ کے لوگوں نے ان قبرستانوں پہ تحقیق نہیں کی ہے جس کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان چوکوری قبرستانوں کے باہر بنے عمارات کی لمبائی ایک سو فٹ سے بھی زیادہ ہے جبکہ چوڑائی بیس سے تیس فٹ کے درمیان ہوگی۔ بعض بزرگوں کے بقول یہ چوکوری قبرستان اس وقت بنائے گئے تھے جس وقت بلوچستان کی سر زمین کو سخت پانی کی کمی کا سامنا تھا۔ شاید اسی وجہ سے ان قبرستانوں کی تعمیر میں پانی کی جگہ اونٹنی کا دودھ استعمال کیا گیا تھا۔

کیونکہ اونٹنی کا دودھ آج جتنا نایاب ہے ، اس وقت اتنا نایاب نہیں تھا کیونکہ اس وقت سرداروں کے پاس درجنوں اونٹوں کے قافلے ہوتے تھے اور اس وقت سرداروں کی سب سے قیمتی مال ومتاع اونٹنی کو سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان اونٹوں پہ بلوچوں لڑائیاں لڑی جاتی تھی جو کئی کئی سالوں تک چلتی تھیں جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ہمارے بلوچستان کے رنگ بہت حسین ہیں۔ کہیں بلند و بالا اور فلک بوس پہاڑ تو کہیں میلوں پر پھیلے ہوئے میدانی علاقے۔ کہیں فصلوں کی ہریالی، کہیں آبشار تو کہیں قدیم ترین تہذیب مہر گڑھ کے کھنڈرات اور کہیں پہاڑوں کی اترائی اور چڑھائی کے خوبصورت مناظر جو دل میں اتر جاتے ہیں۔

بلوچستان میں مختلف قومیں آباد ہیں اور اِن سب کے رسوم و رواج اپنے اپنے حلقے میں الگ الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ مثلاً سندھیوں کی ثقافت لسبیلہ کی جانب سے بلوچستان میں داخل ہوئی تو کوئٹہ کی طرف پشتونوں کی ثقافت نے جنم لیا۔ سندھ اور پنجاب کی سرحدوں سے بھی ثقافت کا کچھ حصہ اس خطے میں داخل ہوا، گویا بلوچستان اپنی ثقافت میں بھی متنوع ہے۔آج سے دو ہزار سال قبل تجارتی قافلے برف پوش پہاڑوں کے سائے تلے پگڈنڈیوں اور گدھوں کے اوپر سفر کیا کرتے تھے۔ راستے انتہائی پْر پیچ گھاٹیوں پر مشتمل ہوتے تھے۔

انہی پتھروں پر چل کر لوگ تجارت کرتے تھے۔ ریشم کی تجارت کی غرض سے دور دور تک سفر کرتے تھے۔ اگر میں اپنے ماضی پر نظر ڈالوں تو یہ نہیں معلوم کہ میں کب میں ان چوکوری مقبروں اور پہاڑوں کی محبت میں گرفتار ہوگیا کچھ یاد نہیں ہے۔ میں نے جب پہلی مرتبہ ان چوکوری مقبروں کو دیکھا تو حیران رہ گیا کہ اس وقت کے مستری کیسے تھے۔ اِس وقت میں دسویں جماعت میں تھا۔ جب پہلی مرتبہ چوکوری مقبروں پہ لکھنے لگا تھا۔بلوچستان کی سرزمین جہاں سنگلاخ پہاڑوں ریگستانوں اور ثقافتوں میں پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔

وہیں صدیوں پرانی قدیم چوکنڈی قبرستان پوری آب و تاب سے دنیا کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ان سیکڑوں سال پرانی چوکنڈی قبرستانوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور سے بھی آبادی تھی۔ آج کل سینکڑوں سال پرانے چوکنڈی مقبرے اور عظیم شان مزار منہدم ہورہے ہیں ان مزاروں اور چوکنڈی قبرستانوں کو اونٹنی کے دودھ سے بنائے جانے کے انکشافات آج تک ہوتے آ رہے ہیں۔ یہ نایاب مزار ، چوکنڈی مقبرے آج کل بلوچستان میں ناپید ہوتے جا رہے ہیں ان مزاروں اور چوکنڈی مقبروں میں بلوچستان کی عظیم ہستیاں دفن ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دیئے ہیں جس کی وجہ سے عظیم شان مزار اور چوکنڈی قبرستان بنائے گئے تھے۔

چوکنڈی کا مطلب چار کونے والا ۔ان قبروں پر بلوچی لباس کی طرح ڈیزائن بھی بنائے جاتے تھے۔ تالپور (بلوچ) قبائل کسی زمانے میں سندھ میں حکمران ہوا کرتے تھے۔ وہ لوگ بلوچ عظیم شخصیات کے مزار اور چوکنڈی قبریںبناتے تھے جو آج تک بلوچستان کی سر زمیں پر موجود ہیں۔بلوچستان کے مزارات اور چوکنڈی قبرستان مکلی کے قبرستان سے بہت مشاہبت رکھتے ہیں۔ اس قبرستان میں پندرھویں سے اٹھارویں صدی عیسوی کی قبریں موجود ہیں۔ ان مزاروں، چوکنڈی قبروں کی تعمیر میں روف اینٹ کا استعمال کیا گیا ہے،یہ مزار کثیر منزلہ صورت میں تعمیر کیئے گئے ہیں ان مزاروں کو انتہائی خوبصورت نقش نگاری کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے ۔

بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کو قدیم تہذیب ہونے کا اعزاز تو حاصل ہے مگر حکمرانوں کی عدم توجہ افسوسناک ہے۔ جعفرآباد کے قدیم چوکنڈی قبروں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں کے لوگ دراز قد ہوتے تھے اور ساتھ میں فن تعمیر میں مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کے عظیم شان مزار اور چوکنڈی قبرستان بنائے گئے تھے۔بلوچ قبائل زرعی انقلاب میں اپنا لوہا منوا چکے تھے۔ فصلوں میں اپنی انا کو بھی بو آتے اور فصل کٹتی تو سروں کی پگڑیاں بھی کاٹ دی جاتی تھیں۔ ہمیشہ باہمی چپقلش میں بلوچ قبائل بھی دست و گریباں رہے اور قبروں میں جا بسے۔

جو طبقاتی فرق دنیا میں رہا وہی ان منقش قبروں پر بھی آویزاں ہے۔ ان قبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قبر پر کئی کئی ماہر کاریگروں نے کئی کئی ماہ تک کام کیا ہے۔ آج کل بلوچستان کے تمام تاریخی چوکنڈی مقبرے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اور سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور تماشا دیکھ رہے ہیں حتیٰ کہ بلوچستان میں کئی مزار اور چوکنڈی مقبرے بلوچی رومانوی کرداروں سے منسوب ہیں جعفرآباد میں بلوچوں کے تاریخی مقامات کو آہستہ آہستہ صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش ہو رہی ہے۔اس وقت جو سردار ہوتے تھے اْن کے مقبرے زمین سے اونچے ایک چوکنڈی یا گول چھتری نما شکل میں بنائے گئے ہیں۔

ان کے محرابوں پر شاید اْن کے لہو کے چھینٹے موجود ہیں۔جعفرآباد میں کئی حاکم وقت آئے اور گزرگئے جن میں ایک مقام عظیم سپوت لھڑاں خان جمالی سہریانی کا عظیم شان مزار اور چوکنڈی مقبرہ بھی ہے جو یونین کونسل سمیجی اور تحصیل اوستہ محمد میں واقع ہے۔ اس قدیم مزار، چوکنڈی مقبرہ کی عمارت آج خستہ حالت حال ہے اور زمین بوس ہو رہی ہے۔ گزشتہ چند سال پہلے سیلاب کی وجہ سے شہیدا کے مقام پر سخی صوبدار خان اور بھائی خان کا مزار بھی زمین بوس ہو چکی ہے۔ جبکہ عظیم بلوچ سپوت شیر خان کا مزار بھی نصیرآباد کے مقام پہ ختم ہونے کے قریب ہے۔

یوں بلوچستان کے کئی تاریخی مقامات بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان مزاروں کے نقش و نگار مکلی ٹھٹھہ کے گورنر کے مقبرے سے مشابہت رکھتے ہیں ان کی فن تعمیر بھی ایک جیسی ہی لگتی ہے۔مکلی کے مقبروں کی دیکھ بھال سندھ سرکار اور یونیسکو کرتے آ رہے ہیں۔ اس لیے وہ آج تک بہترحالت میں موجود ہیں۔ مگر بلوچستان کی سرکار سمیت عالمی ادارے ان قبرستانوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہے جس کی وجہ سے یہ مقبرے منہدم ہو رہے ہیں جو ایک افسوسناک عمل ہے۔بلوچستان کے مشہورتاریخی قبرستانوں پہ آج تک کوئی بھی عملی کام نہیں کیا گیا ہے۔

اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان مقبروں کو مٹانے کی سازش ہو رہی ہے۔ بلوچستان میں کئی چوکنڈی قبرستان اور آثارِ قدیمہ کے نشانات مٹ چکے ہیں یا تو مٹنے کے قریب ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومتی ادارے محض فنڈز لینے کے لیے قائم کئے گئے ہیں۔اس حوالے سے سیکٹری ثقافت بلوچستان کو چاہیئے کہ وہ ان چوکنڈی قبرستانوں پہ کام کریں تاکہ بلوچستان کی سیکڑوں سال پرانی ثقافت زندہ رہ سکے۔ آج بھی بلوچستان کے مزاروں اور چوکنڈی قبرستان کی حفاظت اور بحالی کے لئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے جس میں پولیس چوکیوں کا قیام، حفاظتی دیوار کی مرمت و تعمیر اورچوکیداروں کی تعیناتی شامل ہے۔

اب تو صورتحال یہ ہے کہ حکومت سندھ اور اس کے محکمہ آثار قدیمہ کے لوگ ان چوکنڈی قبرستانوں کی بحالی اور حفاظت کیلئے خاطرخواہ اقدامات کر رہے ہیں کیوں کہ یہ صرف سندھ کا نہیں پورے پاکستان کے اثاثے ہیں ۔کاش بلوچستان کے ان عظیم اثاثہ جات کو بلوچستان کا اثاثہ سمجھ کر کام کیا جائے تو یہ معدوم ہونے سے بچ جائیں گے اور دنیا کو بھی پتہ چلے گاکتنی قدیم اور نایاب ورثے بلوچستان میں بھی موجود ہیں۔ مگر یہ بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ کئی پرانے مقامات اور ثقافتی نشانات کو ختم کر دیا جا رہا ہے لیکن افسوس کہ حکمران طبقہ خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ ان کی خاموشی ثابت کرتی ہے کہ وہ اس جرم میں برابر شامل ہیں۔

بلوچ قوم دوست جو ہرسال پگڑی، اجرک ڈے اورکلچرل ڈے تو مناتے ہیں ان سے یہ سوال ہے کہ ایک دن منانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ زمین ہوگی تو ثقافت اور کلچر زندہ رہے گا۔ اگرپاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی تو نہ زبان ہوگی اورنہ کلچر اور نہ ثقافت۔ اس لیے دوستوں سے عرض ہے کہ آگے بڑھیں، اپنے تاریخی مقامات کی حفاظت کریں۔ ہر فورم پر اس مسئلے کو اٹھائیں۔دنیا کو جگائیں لیکن سب سے پہلے ہمیں خود جاگنا پڑے گا۔ حکومت بلوچستان سے پرزور اپیل ہے کہ جعفرآباد کے علاقے (سمیجی) میں ایک قدیم اور تاریخی مقبرہ جوکہ روز بروز اس کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے لہٰذا حکومت بلوچستان اس پر توجہ دے تاکہ تاریخی مقامات صفحہ ہستی سے مٹنے سے بچ جائیں۔

پرانے مزار اور چوکنڈی قبریں بلوچستان کی قدیم دور کے فن تعمیرکا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ حتی ٰ کہ بلوچستان کی کتابوں میں بھی چوکنڈی قبروں کا ذکر نہیں ملتا ہمارے نوجوان اور آنے والی نسلیں اس قدیم تاریخی ورثہ سے مکمل بے خبر رہ جائیں گے۔ گورنر بلوچستان، وزیر اعلیٰ بلوچستان اور سیکرٹری ثقافت کو چاہیے کہ ان مقامات پر توجہ دیں تاکہ ان نامور ہستیوں کو رہتی دنیا تک دیکھا جا سکے۔