|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2015

افغان مہاجرین کے بعض رہنماؤں، افغان ٹرانسپورٹرز اور تاجروں نے حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ان کو پاکستان میں مزید پانچ ماہ رہنے دیا جائے کیونکہ ان کے ملک واپسی کے اوقات میں موسم زیادہ سرد ہوگا جس سے ان کو تکلیف پہنچنے کا احتمال ہے۔ ان کا یہ مطالبہ ناجائز ہے کیونکہ موسمی حالات ہر سال ایک جیسے ہوتے ہیں ان موسمی حلات کا بہرحال ان کو سامنا کرنا پڑے گا جلد یا بدیر۔لہذا افغان مہاجرین کی واپسی میں تاخیر موسمی حالات کی وجہ سے ایک آدھ دن تک جائز ہے کہ وہاں برف باری یا بارشیں ہورہی ہوں مگر مہینوں کیلئے نہیں ۔اگر موسمی حالات کو پیش نظر رکھنا ہے تو جون کے ماہ سے افغان مہاجرین کی واپسی شروع کی جائے اور دسمبر تک اس کو مکمل کیا جائے ۔ بہر حال کوئی بھی رجسٹرڈ افغان مہاجر یکم جنوری کو پاکستان میں موجود نہیں ہونا چاہئیے۔ان کے واپسی کے عمل کوچھ ماہ قبل شروع کیا جائے تاکہ سال کے آخر تک یہ مکمل ہو جائے اور افغان مہاجرین موسمی حالات خراب ہونے سے پیشتر واپس اپنے وطن عزت اور احترام سے چلے جائیں۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر نہ کی جائے اور موسمی حالات کا بہانہ نہ بنایا جائے۔ افغان مہاجرین گزشتہ 30 سالوں سے پاکستان کی معیشت اور عوام پر بوجھ بنے ہوئے ہیں ۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی تباہ اور برباد ہو چکی ہے، اب اس میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے باسیوں کو روزگار دے اور ان کے خوراک اور رہنے کا بندوبست کرے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام نے افغان مہاجرین کی گزشتہ 30سالوں میں بھرپور خدمت کی ہے اور اب ان پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپس چلے جائیں تاکہ پاکستان اور اس کے عوام کو مزید پریشانیون کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر افغان مہاجرین خود اپنی مرضی سے اوررضاکارانہ بنیاد پر واپس اپنے وطن چلے جاتے ہیں تو ان کے عزت اور وقار میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ پاکستانی عوام 30سالوں تک مہمانداری کرچکے۔ دوسری جانب بین الاقوامی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کے نظام میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو یہ دلیل دے رہا ہے کہ افغان مہاجرین 30سال یہاں رہے۔ اب ان کو مستقل طور پر یہاں رہنے دیا جائے کیونکہ ان کیلئے افغانستان میں کچھ نہیں بچا۔ یہ سوچ بدنیتی پرمبنی ہے یہ افغانوں کا ملک نہیں ہے یہاں غیر ملکی نہیں رہ سکتے۔ اتنے لمبے عرصے رہے وہ ہمارے مہمان بن کر فاتح بن کر نہیں۔ہم نے انسانی ہمدردی میں ان کو پناہ دی تھی ۔ لہذا وہ واپس اپنے وطن چلے جائیں تو بہتر ہوگا بلکہ رضا کارانہ طور پر توزیادہ بہتر ہوگا ورنہ حکومت پاکستان ان پر سختی بھی کر سکتی ہے جس سے افغانستان سے تعلقات میں بد مزگی آسکتی ہے۔ بہرحال اس کا دوسرا پہلو افغان تارکین وطن ہیں جو غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوئے اور یہاں بودوباش اختیار کر لیا ان کا قیام غیر قانونی ہے ۔ آئے دن مقامی انتظامیہ ان کو ایبٹ آباد‘پشاور‘ اسلام آباد‘ کرم ایجنسی سے نکالنے کے نوٹس جاری کرتی رہتی ہے۔ حکومت بلوچستان بھی نیم دلی سے کچھ نہ کچھ کاروائی کررہی ہے ۔ایک آدھ غیر قانونی لوگوں کو گرفتار کررہی ہے۔ بعض کو وطن واپس بھیجا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کے پی کے اور بلوچستان کی حکومتیں غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف بھر پور کاروائی کریں۔ ان سب کو گرفتار کیا جائے ان کی جائیداد ضبط کی جائے اور ان کو قانون کے مطابق سزائیں دینے کے بعد واپس وطن بھیجا جائے یا سرحد پر ان کو افغان حکام کے حوالے کیا جائے۔ جس بھی افغان نے پاکستانی دستاویزات ، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنائے ہیں وہ سب کے سب غیر قانونی ہیں اور اس پر ان کو الگ الگ جیل کی سزائیں ہوسکتی ہیں ‘بلکہ ان افسران کے خلاف بھی کاروائی ہو نی چائیے جنہوں نے ان کو شناختی کارڈو پاسپورٹ اور دوسرے پاکستانی دستیاویزات بنا کر دئیے ہیں ۔ شناختی کارڈ رکھنے سے غیر ملکی تارکین وطن پاکستانی نہیں ہوتا۔ چونکہ وہ معاشی مہاجر ہے اور معاشی ضروریات کے تحت پاکستان اور بلوچستان آیا ہے اس سے اس کا معاشی حق۔پہلے چھینا جائے اور بعد میں ان کو افغانستان واپس بھیجا جائے