|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2015

بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جس کو حکمرانوں نے ہمیشہ سے نظرانداز کیا ہوا ہے ۔ بلوچستان کے معالات اورمسائل سے حکمران لاتعلق رہتے ہیں۔ ان کی بھلا سے عوام پر کیاگزر رہی ہے۔ کوئٹہ جیسے صوبائی دارالحکومت میں دن میں چھ بار بجلی آنکھ مچولی کا کھیل کھیلتی ہے اور الیکٹرانک استعمال کی چیزوں کا زبرست نقصان ہورہا ہے۔ تقریباً ہر گھر میں گھریلوتنصیبات کا الگ نقصان ہورہا ہے ۔ پاور سپلائی میں استحکام نہیں ہے اکثر وبیشتر اس میں اتار چڑھاؤ آتا ہے جس سے صارفین کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مستحکم پاور سپلائی کمپنی کی ذمہ داری ہے۔ اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ جہاں ضرورت ہو ٹرانسفارمر نصب کرے۔ غریب صارفین پر بوجھ نہ ڈالا جائے کہ وہ اپنے اخراجات پر اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر مستحکم بجلی کی سپلائی کیلئے ٹرانسفارمر کے لیے لاکھوں روپے خرچ کریں۔ صارفین بجلی کا بل‘ ٹیکس اور سرچارج ادا کررہے ہیں حالیہ مہینوں میں کمپنی نے زیادہ بل وصول کئے۔ بلکہ پاکستان بھر میں صارفین کے جیب پر زبردست ڈاکہ ڈالا گیا اور اب حکومت کے حکم کے بعد اس رقم کو واپس کیا جارہا ہے۔ بلوں میں تبدیلی کرکے ان کی ادائیگی جاری ہے‘کئی پوچھنے والا ہے کہ سرکاری ملازمین نے لوگوں اور خصوصاً صارفین کے جیبوں پر ڈاکہ کیوں ڈالا؟ یہ کس کا حکم تھا،کیا کسی پر ذمہ داری عائید ہوگئی، کسی کو کوئی سزا دی گئی؟ بہر حال مستحکم بجلی کی سپلائی کمپنی کی ذمہ داری ہے۔ اس کی بنیادی ڈھانچے پر تمام اخراجات ریاست یا کمپنی کرے اور صارفین سے صرف بل وصول کیا جائے، ان پر اصافی بوجھ نہ ڈالا جائے ۔صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان پر فرض ہے کہ کمپنی کی کارکردگی پر نگاہ رکھیں تاکہ وہ صارفین کو مناسب خدمات فراہم کرے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے نہ کہ ان پر ناجائز معاشی اور مالی بوجھ ڈالے ۔ جہاں بھی پاور سپلائی میں استحکام نہیں ہے وہاں کمپنی یا حکومت ٹرانسفارمرز لگائے۔ صارفین کو اس سے بری الذمہ قرار دیا جائے اگر کمپنی صارفین سے مطالبہ کرے تو اس کو ہراساں کرنے پر تعبیر کیا جائے۔ پورے بلوچستا ن یہ چیخ وپکار سنائی دے رہی ہے کہ بعض علاقوں میں 20 سے22 گھنٹے لوڈ شیڈنگ جاری ہے جس کا حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا ہے ۔ایم این اے اور ایم پی اے حضرات نے بھی کیسکو کو معافی دے رکھی ہے یا شاید ان کو مفت بجلی مل رہی ہے یا ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کی جارہی ہے۔ بلوچستان کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور حکمران خاموش ہیں دوسری طرف کمپنی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کو 12سو میگا واٹ سے زیادہ شارٹ فال کا سامنا ہے۔ بلوچستان کی ضرورت 16 سو میگا واٹس ہے اور اس کو 12 سو سے زائد میگا واٹس کم مل رہی ہیں۔ ظلم خدا کاایک تو بلوچستان کی ضروریات صرف 16سو میگا واٹس اور اب اس میں بھی کٹوتی یعنی آپ بلوچستان کو دے کیا رہے ہو جو اس میں بھی کمی کررہے ہو۔ وزیر اعلیٰ اور قومی اسمبلی کے اراکین یہ معاملہ متعلقہ حکمرانوں کے سامنے اٹھائیں اور بلوچستان میں بجلی کا بحران ختم کریں۔ بلوچستان میں صنعتیں نہیں ہیں‘ کارخانے نہیں ہیں۔ بجلی کو معاشی سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں کیا جارہا ۔ صرف گھریلو استعمال کیلئے بھی بجلی دستیاب نہیں ہے۔ وفاق صرف لفاظی کررہی ہے اور ایران سے بجلی خریدنے پر سنجیدہ نہیں ہے اگر وفاقی حکومت سنجیدہ ہوتا تو 10 سال قبل ایران سے بجلی خریدی جاتی۔ کم سے کم بلوچستان کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا تھا۔