اس دور میں ہونے والی اقتصادی و صنعتی ترقی سے قطع نظر صدرایوب بہرحال ایک آمر تھے اور کوئی بھی آمر بلا شرکت غیرے دائمی اقتدار کا خواہاں ہوتا ہے اور ایوب خان کو بھی اس سے استثنیٰ نہیں تھا۔چنانچہ صدرایوب خان نے 1962ء میں ملک میں ایسا آئین نافذ کیا جو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح گھوم پھر کران کی اپنی ذات واختیارات پر مرتکز تھا اور 1964ء میں اس آئین کے تحت متنازعہ انتخابات کے ذریعے جس میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح حزب اختلاف کی متفقہ امیدوار تھیں، ایوب خان پانچ سال کی مدت کیلئے دوبارہ صدر بن بیٹھے، صدرایوب کی انتخابی جیت کو یقینی بنانے کیلئے۔
ان کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹونے جو کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے، بھرپور مہم چلائی، ان انتخابات میں مادرملت کی شکست سے ملک بھر بالخصوص مشرقی پاکستان میں شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ تاہم 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی وجہ سے جس میں ایوب خان بھارت کی جارحیت کے خلاف پاکستان کے موثر دفاع کی وجہ سے ہیرو بن کر ابھرے، یہ بے چینی عارضی طور پر پس پشت چلی گئی لیکن مشرقی پاکستان کے کمزور دفاع کی وجہ سے وہاں احساس محرومی میں اضافہ ہوگیاجبکہ بھٹو نے جنہیں 31اگست 1966ء کو وزیر خارجہ کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔
نے10جنوری 1966ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان سوویت یونین کی ثالثی میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدہ تاشقندکے مبینہ رازوں سے پردہ اٹھانے کا نعرہ لگا کرایوب حکومت کو چیلنج کردیااورعوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ ڈاکٹرمحبوب الحق کے ’’بائیس خاندانوںــ‘‘ کے نعرے نے بھٹو کی ایوب مخالف مہم کو مزید مہمیز دی اور انہوں نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ دینے کادعویٰ کرکے عوام کی بڑی تعداد کی ہمدردیاں حاصل کرلیں۔اس سے پہلے 1959ء کے اوائل میں ملک کا دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی منتقل کردیا گیا تھاجو اسلام آباد کی منصوبہ بندی اور تعمیر تک ملک کا عبوری دارالحکومت رہا۔
اگرچہ یہ ایک انتظامی فیصلہ تھا لیکن اس سے ایک طرف سندھ بالخصوص کراچی میں بے چینی پیدا ہوئی تو دوسری طرف عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کو اسلام آباد کی سڑکوں سے جو ابھی تعمیر کے ابتدائی مراحل میں تھیں، مشرقی پاکستان کی پٹ سن کی خوشبو آنے لگی اور انہوں نے ’’سونار بنگلہ‘‘ کا نعرہ بلند کرکے اپنے چھ نکات پیش کردئیے اور اس طرح مشرقی پاکستان میں شورش بپا کردی۔اس صورتحال کوجہاں ملک کے سنجید ہ حلقے تشویش کی نظروں سے دیکھ رہے تھے، وہیں بھارتی مسلمان بھی کہ 1965ء کی جنگ میں پاکستانی افواج کی طرف سے بٹھائی جانے والی دھاک نے ان کے دلوں میں امید کی کرن اور احساس تحفظ پیدا کردیا تھا۔
پاکستان میں بے چینی پر پریشان تھے اورمشرقی پاکستان میں14 ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ ونگ 15مارچ 1971ء کے فوجی آپریشن کے انچارج میجر جنرل (ریٹائرڈ) خادم حسین راجہ کے بقول،1969ء میں بھارتی عازمین حج نے مکہ مکرمہ میں ان کے ساتھ ملاقاتوں میں ایوب خان کے خلاف عوام کی جذباتی مہم پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور اسے ایک بلنڈر یعنی فاش غلطی سے تعبیر کیا،ان بھارتی حجاج کا کہتا تھا کہ ایوب خان نے دنیا بھر میں پاکستان کا ایک مستحکم و خوشحال ریاست کا تاثر قائم کیا ہے اور ایجی ٹیشن اس تاثر کو نہ صرف زائل کردے گی۔
بلکہ پاکستان کی اب تک ہونے والی صنعتی ترقی پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایوب برسراقتدار رہتے تو کیا سانحہ پاکستان سے بچا جاسکتا تھا، شاید نہیںکیونکہ دونوں حصوںمیں چلائی جانے والی مہم علیحدہ علیحدہ مقاصد کیلئے تھی یعنی مشرقی پاکستان میں چھ نکات پر عملدرآمد اور مغربی پاکستان میں معاہدہ تاشقند کے خلاف لیکن ہدف ایک تھا یعنی ایوب خان۔ بالآخر 25مارچ 1969ء کو صدر ایوب مستعفی ہوگئے اوراپنے ہی بنائے ہوئے 1962ء کے آئین کو روندتے ہوئے اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کرنے کی بجائے کمانڈرانچیف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیاجنہوں نے فوراً ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے تمام اختیارات سنبھال لئے ۔
اس مختصر تاریخ کے بعد اب سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔جیسا کہ مضمون کی ابتدا میں عرض کیا گیا ’’حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘ ۔ ہم نے شروع سے مشرقی پاکستانی بھائیوں کو تحقیر کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ ہم نے یہ بات فراموش کردی تھی کہ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے ڈھاکہ میں جنم لیاتھا اور 23مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور جس میں برصغیر کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا گیا تھا، کو پیش کرنے والے مولوی اے کے فضل الحق کا تعلق بنگال سے تھا،ہم نے اس سے بھی صرف نظر کیا کہ ہمارا مشرقی بازو تین اطراف سے دشمن ملک بھارت کے نرغے میںہے ۔
جو کسی وقت بھی ہمارے اس بازو کو مروڑ سکتا ہے اس لئے مشرقی پاکستان کہیں زیادہ حساس بازو ہے اور دفاع کے سلسلے میں یہ ہماری غیر معمولی توجہ کا متقاضی ہے۔ہم ’’ایک ملک اور ایک قوم‘‘ کی بات تو کرتے تھے لیکن عملی طور پرہم بذات خود ایک علیٰحدہ بنگالی فوج تشکیل دے رہے تھے، پنجابی، پٹھان اور دوسرے گروپ مختلف انفنٹری یونٹوں میں خوش اسلوبی کے ساتھ مل جل کر خدمات انجام دے رہے تھے اور کبھی کوئی انتظامی ، نسلی اور لسانی مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا لیکن بنگالیوں کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ چنانچہ 1969ء میںمشرقی پاکستان میں تعینات میجرجنرل خادم حسین راجہ نے انفنٹری میںاس خلاء کو محسوس کرتے ہوئے۔
راجشاہی میں تعینات 27 پنجاب، جیسور میں تعینات 27بلوچ اور ڈھاکہ میں تعینات 19فرنٹیئر فورس میں بنگالیوں کو25 فیصد نمائندگی دی جبکہ اسی سال انہوں نے جنرل ہیڈکوارٹر کو بنگالیوں کی 25فیصد نمائندگی کے ساتھ نئے انفنٹری یونٹ قائم کرنے کی تجویز پیش کی لیکن اس کے جواب میں جنرل ہیڈکوارٹر کی طرف سے خالصتاً بنگالیوں پر مشتمل تین نئی انفنٹری بٹالینز یعنی 8، 9 اور 10ایسٹ بنگال بٹالینز تشکیل دینے کے احکامات جاری کیے گئے۔
باور کیا جاتا ہے کہ یہ احکامات مبینہ طور پر جنرل ہیڈکوارٹرز میں تعینات ماسٹر جنرل آف آرڈننس لیفٹیننٹ جنرل خواجہ وسیع الدین، ایسٹ بنگال رجمنٹ کے کرنل کمانڈنٹ اور سینئر بنگالی افسروں کے دبائو کے تحت جاری کیے گئے اور ایسا کرتے ہوئے خالصتاً بنگالیوں پر مشتمل تین انفنٹری بٹالینز کے قیام کے نتائج و عواقب سے صرف نظر کیا گیا۔ اس سے پہلے ایسی رپورٹس آچکی تھیں کہ بنگالی افسروں نے اپنا ایک علیحدہ حلقہ قائم کررکھا تھا اور وہ شاذ ہی اپنے مغربی پاکستانی بھائیوں میں گھلتے ملتے تھے، اسی طرح ان کی فیملیز نے خود کو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسروں کی فیملیز سے الگ تھلگ رکھا ہوا تھا۔
روزانہ شام کو ان کی چھوٹی چھوٹی بیٹھکیں ہوتی تھیں جن میں مغربی پاکستانیوں کی شرکت ناممکن تھی اور وہ یہ جاننے سے قاصر تھے کہ اندرون خانہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں سب سے پہلے ایسٹ پاکستان رائفلز کی بغاوت نے پاک فوج اورمشرقی پاکستان کے دفاع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور وسیع پیمانے پربے اعتمادی کی ناقابل عبور خلیج حائل کردی۔اسی طرح مشرقی پاکستان میں تعینات فوجیوں کی تعدادبھی انتہائی ناکافی تھی اور 1965ء کی جنگ کے بعدعام عوام اورحتیٰ کہ فوجی چھائونیوں میں بھی عدم تحفظ اور تنہائی کا احساس جاگزیں ہو چکا تھا۔
مغائرت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ بنگالی دکاندار غیربنگالیوں بشمول بہاریوں کو اشیاء تک بیچنے کو تیار نہ تھے۔ ایسے میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کی اشتعال انگیز مبالغہ آرائیوں پر مبنی تقریروں نے جلتی پر کام کیا اورپاکستان کے دونوں بازوئوں کے مابین اجنبیت کی ناقابل عبور دیواریں کھڑی کردیں۔انہوں نے غلط اعدادوشمار پیش کرکے یہ تاثر پختہ کردیا کہ مشرقی پاکستان میں کمایا جانے والا غیرملکی زرمبادلہ مغربی پاکستان کے ترقی پرخرچ کیا جارہا ہے حالانکہ ایوب حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کا ثمرمشرقی پاکستان کے طول و عرض میں واضح طور پر نظر آرہا تھا۔ اس صورتحال میں وفاقی حکومت کے کسی ادارے یا فرد کی طرف سے شیخ مجیب کے دعوئوں کی تردید کرنے کو کوئی نہ تھا۔ (جاری ہے)