1998ء میں سقوط ڈھاکہ پر ایک ضخیم دستاویز مرتب کرتے ہوئے راقم نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریک تکمیل پاکستان کے سربراہ اور وزیر تاحیات محمود علی سے ایک انٹرویو کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے پاسپورٹ پر بنگلہ دیش کا ویزہ نہیں لگوایا کہ کہیں بنگلہ دیش کا ویزہ لگنے سے پاکستانی پاسپورٹ ناپاک نہ ہوجائے، جنرل نیازی کے بارے میں محمود علی کا کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کی بجائے وہ مرکیوں نہ گیا۔ جب راقم نے ان کی توجہ جنرل نیازی کے اس بیان کی طرف دلائی کہ مذاکرات ہتھیار ڈالنے کیلئے نہیں بلکہ جنگ بندی کیلئے کیے گئے تھے اور ان مذاکرات کی آڑ میں غیر بنگالی باشندوں جن میں خواتین بڑی تعداد میں تھیں، کوبرما کے راستے مغربی پاکستان روانہ کیا گیا تھا تاکہ بھارتی فوجیوں اورباغیوںکے ڈھاکہ میں داخلے کی صورت میںبالخصوص ان خواتین کی عزتیں پامال نہ ہوں،تو محمود علی کچھ دیر کیلئے سوچ میں پڑ گئے اور پھر کہنے لگے شاید وہ ٹھیک کہتا ہے۔اس کے بعد راقم نے محمود علی کو ایک ریٹائرڈ بھارتی جنرل کے بارے میں بتایا جس کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے بعد بھی بھارتی فوج کو مشرقی پاکستان پرقبضے کیلئے ایک ایک انچ پر جنگ لڑنا پڑی کیونکہ مواصلات کا نظام تباہ ہوجانے کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں پاک فوج کے افسران و جوان جنگ بندی سے بے خبر تھے۔جہاںتک سفارتی محاذ کا تعلق ہے، چین مشرقی پاکستان میں سیاسی سمجھوتے کیلئے دہائی دے رہا تھا لیکن صدر یحییٰ خان کو اپنی بد اعمالیوں سے فرصت نہیں تھی، انہیں اس وقت ہوش آیا جب پانی سر سے گزر چکاتھا، اس لئے اقوام متحدہ میں ہماری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔
زیر نظرسطور میں سقوط مشرقی پاکستان کے چند اسباب مختصراً بیان کیے گئے ہیں، آج باقی ماندہ پاکستان کی صورتحال 1971ء کے حالات سے زیادہ مختلف نہیں ہے یعنی ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان سے کچھ نہیں سیکھا ، میری نسل کے لوگ بھی اسے محض تاریخ کی ستم ظریفی سمجھ کر اس سے نظریں چرانے لگے ہیں جبکہ نئی نسل اس سانحے کو محض ایک کہانی سمجھ رہی ہے اور یقین کرنے کو تیار نہیں کہ مشرقی پاکستان کبھی ہمارا بازو تھا۔اس سانحے کو فوجی شکست قرار دینے والے ان ہزاروں فوجی جوانوں کو بھو ل جاتے ہیں جنہوں نے مشرقی پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردی تھیں اور ان کے ورثاء کو ان کے جسد خاکی تک نہیں مل سکے۔
بلنڈرز واحدشعبہ ہے جس میں ہم ’’بے پایاں ترقی ‘‘ کررہے ہیں اور ان پر نادم ہونے کی بجائے ان پر اظہارفخر میں کوئی تامل نہیں کرتے ،1971ء کی طرح وطن عزیز میں آج بھی سیاسی رسہ کشی جاری ہے۔ حکومت و حزب اختلاف کے درمیان بیان بازی دشمنی کی شکل اختیار کرچکی ہے، ہر جمہوری حکومت ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول کے تحت حزب اختلاف کی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتی ہے اور باہمی احترام کے علاوہ مذاکرات کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھتی ہے لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان باہمی احترام اور مذاکرات کادوردور تک امکان دکھائی نہیں دیتااورشیخ مجیب کی عوامی لیگ کی طرح حزب اختلاف کوکچلنے اور مٹانے کیلئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا جارہا ہے،سیاست جو خدمت سے عبارت ہوتی ہے، عبادت سمجھنے کی بجائے اسے منافقت اور خباثت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، آئین سے روگردانی کوملک سے غداری قرار دے کرپاک فوج کے سابق سربراہ جنرل پرویز مشرف کی حب الوطنی کو مشکو ک کردیا گیا اور دنیا میں جگ ہنسائی کا سامان پیدا کیا گیا، تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے اور ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف کو غدار اور مودی کا یار قرار دیا گیا اور آج کے حکمرانوںکو نجانے کل کلاںکن کن تمغوں اور القابات سے نوازاجائے گا ۔جنہیں قوم کی خدمت کیلئے منتخب کیا گیا تھا، ڈھائی سال کے بعد بھی انہیں مخالفین پرالزام تراشی اور نفرتوں کے پرچار سے فرصت نہیں۔1965ء کی جنگ میں آمر ایوب خان کی ایک تقریرپر قوم متحد ہوگئی تھی اور ایک دعوت پر حزب اختلاف ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھی لیکن فروری2019ء میں بھارتی جارحیت کے موقع پرحزب اختلاف کی طرف سے تعاون کی رضاکارانہ وفراخ دلانہ پیشکش کو درخور اعتنا ء نہ سمجھا گیا، شایدہماری صفوں میں اسی تحریک نے ہی نریندرمودی کو گزشتہ سال 5اگست کومقبوضہ کشمیر پر فوج کشی کی تحریک دی۔فوج کشی کے بعدمودی نے اپنے اقدام کا جواز پیش کرنے کیلئے کئی ملکوں کا دورہ کیا اوردوسری طرف ہم؟
جہاں تک ابلاغی محاذ کا تعلق ہے ، زہریلے پراپیگنڈے کیلئے بھارت نے پاکستانی سرحد کے ساتھ ریڈیوسٹیشنز کا جال بچھا دیا ہے جبکہ ہم نے سیالکوٹ اور سرگودھا جیسے دفاعی اعتبار سے حساس ریڈیو سٹیشن بند کردئیے ہیں۔ ریاستی ذرائع ابلاغ کو دنیا بھر میں دفاعی ادارے تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ ہم انہیںمنافع بخش اورتجارتی اداروں میں تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ریاستی ٹی وی کو اس کے نئے چیئرمین نے سرکاری ادارہ قرار دے کر حزب اختلاف کیلئے شجر ممنوعہ بنادیا ہے جبکہ حکومت پر تنقید کو ملک و ریاست سے غداری سے تعبیر کیا جارہاہے۔
دنیا بھر میںسیاستداں اور حکومتیں چاہے وہ آمرانہ ہوں یا جمہوری ، قوم کو متحدو یکجان رکھتے ہیں لیکن ہم؟ آج کی صورتحال دیکھ کر راقم کواکتوبر1998ء میں حکیم محمد سعید شہید کے ساتھ ان کی زندگی کاآخری انٹرویو یادآرہا ہے، راقم کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاتھا ’’میں ایک اور (خاکم بدہن) تقسیم پاکستان دیکھ رہاہوں‘‘۔آج کی صورتحال کو دیکھ کر راقم یہی کہہ سکتا ہے ؎
کیا پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟(ختم شد)
East Pakistan: ‘Witness to Blunders'(4)
وقتِ اشاعت : December 18 – 2020