گوادر شہر میں حفاظتی باڑ کا حصار کھینچا جا رہا ہے۔ مقامی ماہی گیر اس کی وجہ سے شدید اعصابی تناؤ کا شکار ہیں اور بلوچ قوم پرست سراپا احتجاج۔ ایسا لگ رہا ہے، جیسے سمندری ہواؤں پر کانٹوں کے پھندوں کی تعمیر کی جارہی ہے۔
بلوچستان کی ساحلی پٹی پر واقع ماہی گیروں کا قدیم دیس گوادر مجھے ہمیشہ بحیرہ عرب کی لہروں پر سفر کرتی کشتی کی مانند لگا۔ تین اطراف گہرے سمندر کی بلند بالا لہریں، دوسری جانب مٹی اور سخت چٹانوں والا کئی سو فٹ اونچا اور میلوں پر پھیلا پہاڑ ’کوہ باطل‘ ماہی گیروں کی بستیوں کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے۔کوہ باطل کے دامن میں بسنے والے ماہی گیروں کے بعض قبیلوں کا عقیدہ ہے کہ یہ پہاڑ مقدس ہے اور ان کی بستیوں کو سمندری طوفانوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ ان کے بقول ارد گرد سمندر ان کا قلعہ اور یہ مقدس پہاڑ ان کی بستیوں کی فصیل ہے۔
گوادر شہر کے گرد حفاظتی باڑ یاخاردار تاروں کا حصار کھینچنے کی وجہ سیکورٹی خدشات، دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے شہر کو محفوظ رکھنا بتائی جارہی ہے، مگر مقامی ماہی گیر شدید اعصابی تناؤ کا شکار ہیں اور بلوچ قوم پرست سراپا احتجاج۔
کوہ باطل بعض قبیلوں کے لیے مقدس ہے
یونس انور بلوچ نسلوں سے ماہی گیری کر رہے ہیں اور وہ گوادر کے ماہی گیروں کی تنظیم کے سرکردہ رہنما ہیں،”سامنے سمندر کی وسعت، کھلا آسمان، ارد گرد اونچے پہاڑ۔ ہم ماہی گیروں کی یہی ہے کل کائنات۔ ارد گرد باڑ کھڑی کر کے کیوں ہماری سانسوں پر قفل لگاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں ترقی کریں، لیکن قید خانہ میں نہ ہوں۔ ہماری اولاد لکھ پڑھ کر تعلیم یافتہ ماہی گیر بنے۔ ماہی گیروں کی ترقی پابندیوں میں نہیں بلکہ کھلی فضا میں ہے۔‘‘
گوادر کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ سکندر اعظم سے پرتگالی حملہ آورں کی آمد، عرب حکمرانوں اور پھر برطانوی سامراج کے راج کا اثر رہا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد یعنی انیس سو اٹھاون تک گوادر عمان سلطنت کا حصہ رہا۔ انتہائی اہمیت کے حامل اس جزیرہ نما گوادر پر ہندوستان نے بھی نظریں گاڑھی ہوئی تھیں لیکن قرعہ فال پاکستان کے نام نکلا۔ لگ بھگ تین ملین برطانوی پاؤنڈز کے عوض اسے خریدا گیا۔
ماضی کے اس دور افتادہ قصبہ گوادر نے شہر میں تبدیل ہونے تک کا سفر کیسے طے کیا، میں خود عینی شاہد ہوں۔کئی دہایوں قبل جب میں طالب علمی کی آوارہ گردی کے زمانہ میں یہاں آیا تو سمندر میں چپوؤں والی کشتیاں، ماہی گیروں کی بستیاں، جھونپڑیوں پر پھٹے پرانے مچھلی پکڑنے کے لٹکتے جال، ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے غریب مچھیروں کی قسمت ان پھٹے پرانے جالوں میں ہمیشہ کے لیے الجھ سی گئی ہو۔
یہ بلوچ مچھیرے غربت، مفلسی دامن میں لیے زندگی ضرور بسر کرتے ہیں لیکن دل کشادہ اور بلا کے خوشدل اور مہمان نواز ہیں۔ان دنوں یہ علاقہ پسماندہ مگر طاقتوروں کی ظالم آنکھوں اور شکنجوں سے محفوظ تھا۔مگر جنرل مشرف کے زمانے میں جیسے ہی گوادر پورٹ کی اہمیت اجاگر کی گئی اور اس کی ترقی کے نام کا منتر پڑھا گیا تو شاید قدرت کی عطا کردہ سادگی جیسے روٹھ گئی ہو۔
اسی دور میں بلوچستان کے معروف محقق اور مصنف شاہ محمد مری نے جب گوادر کا دورہ کیا تو اس کی تبدیل شدہ حالت پر اپنی کتاب’بلوچ ساحل اور سمندر‘میں ذکر کچھ یوں کیا،” (گوادر) شہر کیا تھا، لمبی لمبی دیواروں کے غیر آباد احاطوں کا مجموعہ تھا۔ یہ قبضہ کے احاطے تھے۔ چیک پوسٹوں کے قبضہ کردہ احاطے، دینی مدرسوں کے قبضہ کردہ احاطے، مسجدوں کے احاطے، سیاسی لیڈروں اور زور آوروں کی طرف سے قبضہ کی ہوئی چار دیواریوں کے احاطے۔۔۔گوادر، قبضہ شدہ شہر ہے۔‘‘
بلوچ قوم پرستوں اور سیاستدانوں کے احساسات آج بھی کچھ یوں ہی ہیں۔ کچھ گوادر باڑ کی تعمیر کو مقامی آبادی کو بے دخل کرنے کی ایک سازش کے طور پر گردان رہے ہیں اور بعض ترقی کے نام پر’بحرہ بلوچ‘ پر قبضے کی کوشش۔ احساسات اور تحفظات کو جائز قرار دیں یا ناجائز یا مبالغہ آرائی یا سیاست چمکانا، صوابدید حکمرانوں کی۔
اس وقت گوادر شہر کی آبادی ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ اسی میں پاکستان کا چین کے ساتھ اربوں ڈالر کی لاگت کے منصوبے سی پیک کی شہ رگ گوادر پورٹ بھی شامل ہے۔ اس کو سکیورٹی فراہم کرنا بھی اہم ہے، بلوچ مسلح تنظیموں اور عسکریت پسند عناصر سے خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ تین برسوں میں گوادر اور اسی ساحلی پٹی پر واقعہ جیوانی، اورماڑا اور پسنی میں دہشت گردی کے پانچ بڑے واقعات ہوئے ہیں۔ ایک واقعے میں ایف سی کے چودہ اہلکار مارے گئے تھے۔
تاہم پہلے کی نسبت حالیہ کچھ عرصے میں دہشت گردانہ حملوں میں کمی آئی ہے۔ حکام کے بقول بلوچستان میں موجود مسلح تنظیموں کو کمزور کر دیا گیا ہے اور بعض مسلح جتھوں یا عناصر نے سرحد پار ’پناہ‘ لی ہے۔ ملکوں کے مابین سرحدوں پر مکمل طور پر فینسنگ یا باڑ کی فصیلیں تعمیر کرنے کے لیے غیر معمولی واقعات وجہ بنتے ہیں۔ نا کہ ملک کے اندر شہروں میں تاروں کی حفاظتی دیواریں بنانا۔ افغانستان اور ایران کی سینکڑوں میل طویل سرحدوں پر باڑ لگائی جارہی ہے۔
گوادر کے لوگوں کے احساسات سے مجھے اپنے بچپن کا واقعہ یاد آتا ہے۔ جب فوجی آمر جنرل ضیاء کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا تو میرے آبائی شہر لاڑکانہ میں قبرستان کا سا سماں تھا۔ میں اسکول کا طالبعلم تھا مگر نو عمری کے باوجود ارد گرد کے سیاسی ماحول کے گہرے اثر تھا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ سائیکلوں پر گڑھی خدا بخش روانہ ہوا، جہاں بھٹو کو دفنایا گیا تھا۔ جب وہاں پر پہنچے تو جذباتی مناظر تھے۔ ایک طرف لوگ نعرے لگا رہے تھے اور دوسری طرف فوجی بکتر بند گاڑیاں، ہماری طرف فوجیوں کی بندوقیں، ارد گرد خاردار تاروں کا حصار۔ وہ منظر مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔
شہری آبادی میں خاردار تاریں ہوں یا رکاوٹیں یا نو گو ایریاز چاہے سیکورٹی وجوہات ہوں یا مسلح جتھوں کی دہشت گردی۔ لوگ بے بس اور محصور تصور کرتے ہیں اور اعصابی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد پشاور ہو یا کراچی یا وزیرستان اس طرح کی صورتحال لوگوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔
مجھے یاد ہے، جب میں انٹرنیشنل نشریاتی ادارے بی بی سی سے منسلک تھا تو میں لندن سے اسرائیل گیا۔ فلسطینی تنازعہ کی کوریج کے لیے۔ انتفادہ کا دوسرا دور تھا۔ مجھے جب یروشلم سے پہلی مرتبہ فلسطینی علاقے رملہ، غزہ کی پٹی جانے کا موقع ملا تو جگہ جگہ یہودی اور فلسطینی آبادیوں کے درمیان خاردار تاروں کی فصیلیں تعمیر تھیں۔ اسی دورے میں تل ابیب میں ایک امن پسند تنظیم کی جانب سے اسٹریٹ تھیٹر دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ جس میں فصیل کے ایک طرف اسرائیلی فوجیوں کی بندوقوں کے سائے تلے فلسطینی بچوں کو جبکہ دوسری طرف یہودی بچوں کو سکیورٹی کی خاطر بکتر بند گاڑیوں میں اسکول جاتے ہوئے دکھایا گیا اور تفصیلاً بتایا گیا کہ کس طرح یہ سب بچے اعصابی تناؤ کا شکار ہیں۔
ان مثالوں کی وجہ گوادر میں باڑ کی تعمیر سے مماثلت نہیں بلکہ یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے لوگ اعصابی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں اور دہشت گردی کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ بھی ممکن نہیں۔بالخصوص بلوچستان جیسے پسماندہ صوبہ میں جہاں کے باسیوں کو احساس محرومی ہے۔ تاریخ شورش زدہ رہی ہے۔ زیادتیوں کے ڈھیر سارے گلے شکوے ہیں۔ وہاں لوگوں کے دلوں میں گھر بنانا چاہیے، نہ کہ لوہے کی خاردار تاروں کی دیوار، جس سے مزید تقسیم کا خوف ہو۔
کہاوت ہے جس نے گوادر میں حسین شام بتائی ہو وہ ہمیشہ کے لیے اس کے سحر میں مبتلا رہتا ہے۔ شاید میں بھی ایسا ہی خوش قسمت ہوں۔
شام کا ڈوبتا سورج، سمندری ہوائیں کوہ باطل سے ٹکراتی ہوئی آوازیں جو ہم جیسے اجنبیوں کے لیے شاید مدھر موسیقی کی دھن محسوس ہوتی ہوں، مگر ماہی گیروں کے لیے یہ ہوائیں زندگی ہیں۔ سمندروں کی لہروں میں شکار کی تلاش ہو یا سمندر میں طوفانی خطرات، یہی سمندری ہوائیں ماہی گیروں کے لیے خواجہ خضر ہیں۔
جب گوادر میں خاردار تاروں کی باڑ کا سنا تو ایسا لگا جیسے سمندری ہواؤں پر کانٹوں کے پھندوں کی تعمیرکی جارہی ہے۔
گوادر: سمندری ہواؤں پر کانٹوں کے پھندے
وقتِ اشاعت : December 18 – 2020