|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2020

زراعت کا شعبہ بلوچستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور پاکستان کا شمار دنیا کے بہترین زرعی ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر بیشتر اشیاء کی پیداوار بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے اور بڑے پیمانے پر دیگر ممالک کو برآمدکر کے زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔

اگر کسا نوں کو بہترین سہولیات فراہم کی جائیں تو ملک کی مجموعی معیشت مستحکم ہوسکتی ہے، کسانوں کوتمام تر ضروری سہولیات اورزراعت کے حوالے سے تکنیکی معاونت فراہم کی جائے تو کوئی شک نہیں کہ اس شعبے کومزید ترقی وفروغ ملے گا جس سے نہ صرف کسانوںکو براہ راست فائدہ پہنچے گا

بلکہ معاشی حوالے سے ملکی خزانہ بھی مستحکم ہوگا۔بلوچستان میں کسانوں کیلئے سب سے زیادہ مشکلات آبی وسائل کی کمی کے حوالے سے ہیں بلوچستان میںڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہے، زیر زمین پانی کی سطح روز بروز گرتی جارہی ہے جبکہ قحط سالی نے بھی زراعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

سابقہ ادوار میں ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کئے گئے مگر عملاََ آج تک اس طرح ڈیمز کی تعمیر میں تیزی نہیں دیکھی گئی جس سے زراعت کے شعبے کو درپیش چیلنجز سے نکالاجاسکے۔

بلوچستان میں بیشتر لوگوں کے معاش کا دارومدار زراعت پر ہے، پانی نہ ہونے اور خشک سالی کی وجہ سے زمیندار اورکسان طبقہ نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں حالانکہ سابقہ حکومت کے دوران یہ اعلان کیا گیا تھا کہ سوڈیمز تعمیر کئے جائینگے جس سے بلوچستان میں پانی کے بحران پر قابوپانے میں مدد ملے گی مگر یہ ڈیمز زمین پر بنتے دکھائی نہیں دے رہے ۔

گرین بیلٹ نصیرآباد کے زمیندار بھی یہی صدا بلند کررہے ہیں کہ اگر پانی کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو بڑے پیمانے پر کسانوں اور زمینداروں کو نقصان پہنچے گا اور گرین بیلٹ کہلانے والا نصیر آباد بھی خشک سالی کی لپیٹ میں آجائے گا اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح سے زراعت کے شعبے کو تباہی سے بچایا جائے۔

بلوچستان میںآبی بحران کی وجہ سے بعض اجناس کی پیداوار میں کمی بھی آئی ہے اور آئے روز زمیندارا ورکسانوں کی جانب سے احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا ہے مگر طفل تسلیوں کے سواا نہیں کچھ نہیں ملتا۔ اس جدید دور میں زرعی شعبے میں انقلابی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے خاص کرترجیحی بنیادوں پر ڈیمز بڑے پیمانے پر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے اور جو ڈیمز اس وقت پائپ لائن میں ہیں ان کی تعمیر کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر موجودہ حکومت کام کرے تاکہ آبی مسائل حل ہوسکیں جس کے بعد جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کو یقینی بنائی جائے تاکہ بلوچستان میں زرعی شعبے میں بہتری آسکے۔

یوم کسان کے موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کسان ملکی معیشت اور خوراک کی پیداوار میں اہمیت کے حامل ہیں۔ مشکل معاشی حالات اور کورونا کی وباء کے باوجود قوم کو خوراک کی فراہمی پر ہم اپنے کسان بھائیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ جدید کاشتکاری کے فروغ کے لیے زمینداروں کو رعایتی قیمت پر ٹریکٹرز، لیزرلینڈ لیولر، سیڈ ڈرل اور تھریشر فراہم کیے جا رہے ہیںاور اس کے ساتھ ساتھ زرعی میدان میں پیداوارکو بڑھانے کے لئے ڈرپ ایریگیشن اور ٹنل فارمنگ کو فروغ دیا جارہا ہے۔

کچھی کینال،میرانی ڈیم، سبگزئی ڈیم اور دیگر زیر تعمیر ڈیموں سے وسیع اراضی کو قابل کاشت بنایا جاسکے گا۔ امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اس عمل کو یقینی بناتے ہوئے زراعت کے شعبے کو بہتری کی جانب گامزن کرنے کیلئے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اپنا کردارادا کرینگے تاکہ بلوچستان میں زراعت کا شعبہ ترقی کرسکے۔