20؍دسمبر 2007ء کو گل جی اپنی اہلیہ اور ملازمہ کے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر مردہ پائے گئے، انہیں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ گل جی کا قتل فن کا قتل تھا، ثقافت و تہذیب کا قتل تھا، حسن، شرافت اورنیک نامی کا قتل تھا ، اورایک عہد اور ایک تاریخ کاقتل تھا۔یہ عہد 16؍دسمبر 2007 ء کو ختم ہو چکاتھااور تاریخ مٹ چکی تھی لیکن چار روز تک کسی کوخبرتک نہ ہوئی تھی۔ کیا بے خبری تھی کہ وطن کی آن ، بان اور شان کواپنے فن کے ذریعے دنیابھر میں چارچاند لگانے والا اور وطن کے کینوس میں ان گنت رنگ بکھیرنے والا خود خوں رنگ ہوچکا تھا۔
گل جی پاکستان کی شناخت تھے لیکن وطن کی شناخت کو مٹادینے کی مکروہ کوشش کرنے والا خون آشام درندہ ہنوز آزادگھوم رہا تھا اور اس کی شناخت اور نشاندہی ہونے میں نہیں آرہی تھی۔تاہم پولیس نے شبہ میں گل جی کے ڈرائیور اور ایک ملازم کو گرفتار کرلیاتھا اور طویل عدالتی کاروائی کے بعد مئی 2017ء میں دونوں کو عمرقید کی سزا سنا دی گئی تھی۔25 اکتوبر1926ء میں پشاورکے محلہ کریم پورہ میں پیداہونے والے گل جی کااصل نام عبدل محمد اسمعٰیل تھا۔ ان کاتعلیمی کیرئیر ہمیشہ قابل رشک رہا۔ انہوں نے لارنس کالج مری میں داخلہ لیا اور بعد میںعلی گڑھ یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرز(سول انجینئرنگ) میں اول پوزیشن حاصل کی۔
کولمبیایونیورسٹی سے ہائیڈرالک انجینئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور پھر ہارورڈ یونیورسٹی سے سائل (Soil)انجینئرنگ میں ماسٹرز کرنے تک وہ پوزیشن ہولڈررہے۔ انہیں علی گڑھ یونیورسٹی کا کم عمرترین لیکچرار ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔گل جی نے اپنے کیرئیرکاآغازامریکہ میں انجینئر کی حیثیت سے کیااور جلد ہی ان کا شمار بلند پایہ سول انجینئرز میں ہونے لگا۔اسی دوران انہیں مصوری کاشوق پیداہوا اور انہوں نے مصوری میں وہ عروج حاصل کیا کہ ان کے تخلیق کیے ہوئے فن پارے اور شاہکارپاکستان کے اعلیٰ ایوانوں اوردفاتر کے علاوہ بیرون ملک متعدد شاہی ایوانوں۔
گیلریوں اوررہائش گاہوں کی زینت بن گئے ۔ گل جی فن میں یکتاہونے کے باوجود اپنی نرم طبیعت، سادگی اور انکساری کی وجہ سے ایک عالم کو اپنا گرویدہ بناچکے تھے۔گل جی مایہ نازسول انجینئر، مجسمہ سازاور مصورہونے کے علاوہ ایک انتہائی دلکش خطاط بھی تھے۔ خود حسن وجمال کامجسم نمونہ تھے اور اس حسن و جمال کی جھلک ان کی خطاطی اور مصوری میں نمایاں تھی۔ ان کی خطاطی اپنی طرز میں منفرداور روحانیت سے بھرپور تھی۔ انہوں نے اپنی خطاطی میں رنگ، شیشے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور سونے چاندی کا استعمال کرکے اس فن کو ایک نئی جلا دی ۔
وہ جہاں اپنی تصویروں میں بولتے تھے اور اپنے مجسموں میں اپنی روح ڈال دیتے تھے وہیں اپنی خطاطی کے ذریعے لفظوں کے پیچ و تاب کونمایاں کرکے ان کی ہستی کے اعجاز کو ادراک دیتے تھے۔انہوں نے لفظ ’اللہ‘ کونت نئے طرز سے یوں لکھا کہ اس لفظ کاہر پیچ وخم خدائے جل شانہ‘ کی کبریائی اور عظمت کے گن گاتا محسوس ہوتا ہے۔اسمائے ربانی پرمبنی ان کے فن پارے دیکھنے والوں پر وجد طاری کردیتے ہیں۔ گل جی نے باقاعدہ کسی سے خطاطی اور مصوری نہیں سیکھی بلکہ وہ خود اپنے استاد تھے۔بعض شعراء کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ فی البدیہہ شاعرہیں۔
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھاجائے توگل جی پر ’فی البدیہہ خطاط اور مصور‘ کی اصطلاح صادق آتی ہے کیونکہ وہ اپنا فن پارہ تخلیق کرتے ہوئے ایک ہی برش سے بیک وقت درجن بھر رنگ بکھیردیتے تھے جبکہ دیکھنے والے یہی سمجھتے تھے کہ ہررنگ باری باری پینٹ کیاگیاہے اور اس کیلئے علیحدہ علیحدہ برش استعمال کئے گئے ہیں۔ کراچی کے ایک صحافی رقم طراز ہیں کہ کراچی میں آغاخان ہسپتال کے افتتاح سے پہلے جہاں صدر پاکستان مہمان خصوصی تھے، قاری صاحب سورہ آل عمران کی ایک آیت کی تلاوت کررہے تھے تو گل جی ساتھ ساتھ چھ ڈایامیٹر کے ایک گول دائرے میں اس آیت کی خطاطی میں مصروف تھے۔
تلاوت ختم ہونے تک گل جی بھی اپنا کام مکمل کرچکے تھے۔ خطاطی میں برق رفتاری کے علاوہ یہ ان کی اپنے فن میں مہارت کی انتہاتھی کہ انہوں نے گول دائرے میں جس مقام سے آیت لکھناشروع کی، عین اسی مقام پر لاکر اسے ختم کیا۔1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران گل جی نے جوطغرے تخلیق کیے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ کانفرنس میں شریک سربراہان مملکت و حکومت اور دوسرے مندوبین ان فن پاروں کو دیکھ کرمبہوت رہ گئے تھے۔(جاری ہے)