|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2020

سندھ کے دو جزائر کو پرائیویٹ کمپنی کے حوالے کرنے کے بعد بلوچستان کے دوسرے بڑے جزیرے، چرنا آئی لینڈ کو بھی کمرشل سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ اس منصوبے کوصوبائی حکام سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے خفیہ رکھا گیا ہے۔ چرنا آئی لینڈ کو بلوچستان حکومت ڈبلیو ڈبلیو ایف کی درخواست پر میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) قرار دینے پر غور کررہی ہے۔ میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) ایک بین الاقوامی قانون ہے جس کا مقصد نایاب نسل کے آبی جاندار کی نسل کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔

جن کی نسلیں معدوم ہورہی ہیں۔ جن میں وھیل مچھلی، ڈولفن، کچھوے اور دیگر آبی حیات شامل ہیں۔ ان کی بڑی تعداد چرنا آئی لینڈ میں پائی جاتی ہے۔ معاشی امور اور ماحولیات کے ماہر عابد مستی خان کے مطابق چرنا آئی لینڈ بلوچستان کی ملکیت ہے۔ اور اس پر پہلا حق مقامی ماہی گیروں کا ہے جہاں وہ صدیوں سے اپناگزربسر کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقع چرنا آئی لینڈ پر خفیہ سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں جس کے باعث چرنا آئی لینڈ کے اردگرد ماہی گیری کرنے سے سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں کو روکا جارہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گڈانی، غلام گدور گوٹھ، قادربخش گدور گوٹھ، عباس گدورگوٹھ، موالی، مبارک ولیج، منجھار گوٹھ، اللہ بنو، من اور ہاکس بے کے قدیم ماہی گیروں کو چرنا آئی لینڈ کے قریب مچھلی کا شکار سمیت لنگر انداز کرنے تک سے منع کیا جارہا ہے۔ پاکستان فشرفوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ نے بتایا کہ چرنا آئی لینڈ پر ایک ایل این جی ٹرمینل بنانے کا منصوبہ ہے جس سے چرنا آئی لینڈ ماحولیاتی لحاظ سے تباہ ہوجائیگا اور وہاں پائی جانے والی آبی حیات کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چرنا آئی لینڈ سے مبارک ولیج کی قدیم آبادی سے اس منصوبے کے پائپ لائن گزارنے کا بھی منصوبہ ہے ۔

جس سے تین سو سال پرانی بلوچ ماہی گیروں کی پوری آبادی متاثر ہوجائیگی اور خوبصورت ساحل سمندر گندگی کا شکار ہوجائیگا۔ ماہی گیر رہنما ء نے اس منصوبے کو ماحول اور انسان دشمن قراردے دیا۔ دوسری جانب بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے چرنا آئی لینڈ پر ایل این جی ٹرمینل کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چرنا آئی لینڈ بلوچستان کی ملکیت ہیں، انہیں وفاق کو ہرگز ہڑپ کرنے نہیں دیں گے۔ نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل میر جان محمد بلیدی نے کہا کہ چرنا آئی لینڈ سمیت بلوچستان اور سندھ کے دیگر جزائر پر قبضہ کے خلاف 28 دسمبر کو کراچی میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی جارہی ہے۔

جس میں بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ کی تمام سیاسی جماعتیں شرکت کریں گی۔ جس کا میزبان سینئرسیاستدان جلال محمود شاہ ہونگے۔ انہوں نے چرنا آئی لینڈ پر ایل این جی ٹرمینل کے قیام کو ایک غیر آئینی اقدام قراردیتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات اٹھانے سے گریزکیا جائے۔ اور اس جزیرے پر ماہی گیروں کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے اس پر کسی بھی قسم کی تعمیرات پر پابندی لگائی جائے۔سندھ اور بلوچستان حکومتوں کی زمینوں پر آئینی حق کو تسلیم کرکے کسی بھی قسم کی نئی قانون سازی نہ کی جائے۔سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں کی قدیمی آبادیوں کو بنیادی سہولیات مہیا کرکے ان کے روزگار کے وسائل کی حفاظت کی جائے۔

واضح رہے کہ صدر عارف علوی نے ایک آرڈیننس کے ذریعے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا جس کا مقصد ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی 1050 کلومیٹرکی ساحلی حدود میں جتنے بھی جزائر ہیں، جن میں جزیرہ ہفت تلار، جزیرہ مالان، جزیرہ بدو، جزیرہ بندل، چرنا آئی لینڈ، کلفٹن صدفہ چٹانیں، جزیرہ خپریانوالہ سمیت دیگر تین سے زائد جزائر شامل ہیں۔ انہیں ترقی کے نام پر قبضے میں لیا گیا۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل مشیر محمد معظم نے بتایا کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان نے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی درخواست پر چرنا آئی لینڈ کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) قرار دینے پر دستاویزات پر دستخط کرکے مزید قانون سازی کے لئے متعلقہ حکام کو ارسال کردی ہے۔

بہت جلد ان کا نوٹیفیکشن جاری ہونے والا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پہلی بار جزیرہ چرناکے قریب مونگے کی چٹانوں کے سفید ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔اکتوبر 2020 کے آخری ہفتے میں چرنا جزیرے کے شمال مشرقی حصے کے آس پاس ایک غوطہ خور مہم پر جزیرے پر مونگے کی چٹانوں کا خطرناک حد تک سفید ہونے کا پتہ چلالیکن اب انہیں شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ عمل کورل بلیچنگ کہلاتا ہے جو کئی سمندری جانوروں کی نرسری کو بری طرح متاثر کررہا ہے کیونکہ ابھی یہ چٹانیں بڑی تیزی سے سفید ہورہی ہیں۔

چرنا جزیرے کے شمال مشرقی سمت میں ان چٹانوں کے سفید بڑے حصے دیکھے گئے ہیں۔ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے غوطہ خوروں نے یہ عمل دیکھا ہے اور اس کی ویڈیو اور تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ صنعتی سرگرمیوں کے باعث سمندر کے درجہ حرارت میں اضافہ بھی ان کورل ریفس کے سفید ہونے کی وجہ ہوسکتا ہے۔چرنا جزیرے کے اطراف تھرمل پاور پلانٹ ،آئل ریفائنری ، پیٹرولیم اور آئل مصنوعات کی ہینڈلنگ کے لئے سنگل پوائنٹ موری بھی موجود ہے۔سمندری آلودگی،صنعتی سرگرمیاں اور سمندر میں چھوڑے جانے والے جال چرنا آئی لینڈ کے حیاتیاتی تنوع کے لیے خطرہ ہیں۔

صرف اسی پر بس نہیں بلکہ چرنا آئی لینڈ کے اطراف مائع پیٹرولیم گیس کا ٹرمینل بنانے کا منصوبہ بھی ہے۔یاد رہے کہ 2018 کو چرنا آئی لینڈ سے مبارک ولیج کے ساحل تک تیل بہنے اور سمندر کو آلودہ کرنے کے ذمہ داروں کا ابھی تک پتا نہیں لگایا گیا۔ مبارک ولیج کے سمندر میں تیل بہنے کے باعث ساحل بری طرح آلودہ ہوگیا تھا جس کی صفائی میں کئی روز لگ گئے تھے۔ مبارک ولیج کے ساحل پر تیل کے باعث شدید آلودگی سے مچھلیوں سمیت دیگر آبی حیات کو نقصان پہنچا تھا اور اسی وجہ سے ماہی گیروں کا روزگار بھی متاثر ہوا تھا۔

بلوچ سیاسی جماعتوں نے چرنا آئی لینڈ کو کمرشل منصوبہ بنانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چرنا آئی لینڈ سے یہاں صدیوں سے آباد مقامی ماہی گیروں کا روزگار وابستہہے۔ اور طوفانی ہواؤں کی صورت میں جزیرے کے پاس آکر پناہ لیتے ہیں تاکہ طوفان سے محفوظ رہ سکیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مبارک ولیج سے لے کر حب کنڈ، موالی اور گڈانی کے ماہی گیروں کو تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے تاکہ وہ اپنا روزگار حاصل کرسکیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) بنانے کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

ایک طرف پاکستان دنیا میں میرین پروٹیکٹڈ ایریا سے متعلق کنونشنوں میں شرکت کرکے ان کے قوانین پر عملدرآمد کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے کیونکہ سندھ اور بلوچستان کے جزائر ایکالوجیکلی اور حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں، جہاں کئی نایاب پرندے اور مچھلیاں پائی جاتی ہیں جن کی نسلیں معدوم ہورہی ہیں۔ کیونکہ انسانی آبادی اور کمرشل بنیادوں پر منصوبوں کو روکنا ہے۔ پاکستان کوکم از کم سترہ فی صد ساحلی اور سمندری علاقہ کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دینا ہے لیکن اب تک پاکستان نے صرف ایک فیصدکا ٹارگٹ حاصل کیا ہے۔

2017 کو ہفت تلار المعروف استولا آئی لینڈ کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دے دیا۔ اس کی منظوری بلوچستان حکومت نے دی تھی کیونکہ یہ بلوچستان حکومت کی ملکیت ہے وفاقی حکومت کی نہیں۔ اس قانون کے تحت اب یہ جزیرہ کسی بھی کمرشل مقصد کے لئے لیز یا الاٹ نہیں ہوسکتا اور اب یہ جزیرہ نایاب نسل کی سمندری حیات اور پرندوں کے لئے مخصوص ہے۔ اور سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کی درخواست پر دو شاخہ دریائے سندھ کو براعظمی شیلف سے ملانے والے مقام پر واقع انڈس کنیان کو بھی کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیا۔ جبکہ چرنا آئی لینڈ، کیپ ماؤنز (راس موری، کراچی) اور میانی ہور (لسبیلہ) اور کئی دیگر علاقوں کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا بنانے کے لیے کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل کی درخواست پر سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کیپ ماؤنز، کراچی (راس موری) سے پاچا تک کی ساحلی پٹی کو بھی ایم پی اے قراردینے کے دستاویزات پر دستخط کرکے مزید قانونی سازی کے لئے متعلقہ حکام کو ارسال کردیا۔ واضح رہے کہ راس موری کراچی کے خوبصورت ترین ساحلی پٹی ہے۔ جہاں 1914 کو برٹش حکومت نے ایک لائٹ ہاؤس بھی تعمیر کیا تھا جو آج بھی اصلی حالت میں ہے۔ یہ ساحلی پٹی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔ ان سرگرمیوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت اچھی طرح واقف ہے۔ اس تناظر میں پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل اس علاقے کو ایم پی اے قراردینے میں مصروف عمل ہیں۔

بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے چرنا آئی لینڈ کو کمرشل بنیادوں پر قبضہ کرنے کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ چرنا آئی لینڈ پر ماحول دشمن منصوبے کو ترک کیا جائے۔

One Response to “بلوچستان کے جزیرے، چرنا کا سودا”

  1. Noor Ahmed Mengal

    The problem has to be taken up at all levels. I request the public representatives of the area,specifically, Bhotani brothers to take up the matter in National assembly and provincial for safe guarding the area.

Comments are closed.