یہ 2018 کی بات ہے جب میں کچھ دوستوں کے ہمراہ گوادر کتب میلہ میں شرکت کے لیے گوادر جارہا تھا۔ راستے میں مختلف ریاستی اداروں کے چیک پوسٹوں پر اپنے پاکستانی ہونے کے ثبوت فراہم کرتے کرتے جب گوادر شہر کے داخلی چیک پوسٹ پر پہنچے تو سمجھنے لگا کہ شاید یہاں بھی وہی روایتی سوالات کا جواب دے کر اور پاکستانی ہونے کے ثبوت پیش کرنے کے بعد ہمیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی لیکن ہمارا اندازہ غلط نکلا، اپنی مکمل شناخت کرانے کے بعد جب سیکیورٹی اہلکار نے سوال کیا۔
کیوں گوادر جارہے ہو؟
کتنے دن کے لیے جارہے ہو؟
اور کس کے پاس جارہے ہو؟
جیسے غیر متوقع سوالات کی بوچھاڑ کی تو شروع میں ہم سٹپٹا گئے ،لیکن پھر خیال آیا کہ ہم اس وقت بلوچستان کے شہر گوادر میں ہیں نہ کہ لاہور یا اسلام آبادمیں۔ بہر کیف ہم نے عاجزی و انکساری سے ان سوالات کے جواب دئیے اس امید پر کہ شاید ہمیں اب داخلے کی اجازت دی جائے گی لیکن انھوں نے مزید مطمئن ہونے کے لیے مجھ سے تکلف میں یہ پوچھ لیا کہ آپ کرتے کیا ہو؟ بس کیا تھا میں نے بھی بڑے طمطراق سے کہا جی میں صحافی ہوں اور کیپیٹل ٹی وی سے میرا تعلق ہے۔یہ سنتے ہی سیکیورٹی اہلکار کا رویہ کچھ شائستہ ضرور ہوا لیکن وہ چوکنا اور مستعد بھی ہوگیا۔
اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سر آپ گاڑی سے اتر کر میرے ساتھ آجائیں ۔قریب ہی وہ مجھے ایک کیبن نما آفس میں لے گیا اور ایک کرسی پر براجمان ہونے کو کہا۔ میرا آفس کارڈ، شناختی کارڈ اور یہاں تک کے وزیٹنگ کارڈ بھی لے لیا اور کہا کہ میں اپنے آفیسر کو یہ دکھا کر ان سے آپ کے شہر میں داخلے کی اجازت لے کر بس پانچ منٹ میں واپس آتاہوں۔ اس وقت مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے سخت لہجے میں کہا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ گوادر شہر میں ہمارے داخلے کو اتنا پیچیدہ مسئلہ کیوں بنا رہے ہو، ہم پاکستانی شہری ہیں اور آئین کے مطابق ہم آزادانہ طور پر کسی بھی شہر میں جا سکتے ہیں۔
اگر آپ چاہتے ہو کہ ہم نہ جائیں تو بتادو ہم واپس کراچی روانہ ہوں گے لیکن ان کی دوبارہ درخواست پر میں نے خاموش ہوکر انتظار کو غنیمت سمجھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے انتظار کی اذیت برداشت کرنے کے بعد وہ سیکیورٹی اہلکار دوبارہ آتے ہوئے مجھے نظر آیا انھوں نے آفس کارڈ اور شناختی کارڈ کی کاپیاں کی ہوئی تھی، اصل کارڈز مجھے دئیے اور انٹری بک میں میرے دستخط لینے کے بعد شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا اور ان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد گوادر شہر میں داخل ہوئے۔ جب ہم اپنے میزبان اعجاز بلوچ جو اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی بلوچستان کے صوبائی جوائنٹ سیکریٹری ہیں۔
کے پاس پہنچے تو اس وقت میں حیرت زدہ رہ گیا جب اعجاز نے مجھ سے کہا کہ مجھے کسی سیکیورٹی ادارے کی طرف سے فون آیا تھا کہ اکرم بلوچ اور تین دیگر لوگ کیا آپ کے مہمان ہیں؟ تو میں نے جواب دیا تھا جی بالکل وہ میرے مہمان ہیں اور تین دن کے لیے وہ گوادر آرہے ہیں حالانکہ داخلے کے وقت میں نے سیکیورٹی اہلکار کو ان کے پوچھنے پر کہا تھا کہ ہم گوادر کتب میلہ کی انتظامیہ کے مہمان ہیں تو پھر انھوں نے اعجاز بلوچ کو کیوں فون کیا ،انھیں کیسے پتہ چلا کہ ہم اعجاز بلوچ کے پاس جارہے ہیں بعد میں دماغ پر زور دینے کے بعد دانست میں یہ بات آئی کہ کچھ عرصہ پہلے میں اعجاز کے ساتھ گوادر آیا تھا یہ ان کے پاس نوٹ تھا اس لیے انھوں نے اعجاز کو فون کیا تھا۔
گوادر شہر میں واقع کوہ باطیل جو شہر کو سمندر کی طوفانی لہروں سے محفوظ بناتاہے جس کے بارے میں مقامی لوگوں کے پاس کئی طلسماتی کہانیاں ہیں۔ کوہ باطیل پر پہنچ کر آپ گوادر کی خوبصورتی اور اس کی جغرافیائی اہمیت کا صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں اس کے علاوہ پی سی ہوٹل بھی کوہ باطیل پر ہی واقع ہے کسی دور میں کوہ باطیل مقامی ماہی گیروں اور شہریوں کے لیے ایک واحد پکنک پوائنٹ ہوا کرتا تھا جہاں لوگ بغیر کسی اجازت کے سیر و تفریح کے لیے جاتے تھے لیکن اب وہاں پہنچنے کے لیے آپ کو کم از کم تین چیک پوسٹوں پر اپنی شناخت ظاہر کرنا اور وہاں جانے کا مقصد بیان کرنا لازم ہے ۔
اس کے بعد ہی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ گوادر پہنچنے کے بعد دوسرے دن کوہ باطیل پر واقع پی سی ہوٹل میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں ہم بھی مدعو تھے لہذا ہم اپنے میزبان اعجاز بلوچ کی گاڑی میں بیٹھ کر پی سی ہوٹل روانہ ہوئے کوہ باطیل پر چڑھنے سے پہلے چیک پوسٹ پر موجود ایک سیکیورٹی اہلکار ہمارے پاس آیا اور ہم سے شناختی کارڈ دکھانے کی درخواست کے ساتھ ساتھ اوپر جانے کی وجہ بھی دریافت کی ۔اعجاز بلوچ نے ہمارا تعارف کرایا اور بتایا کہ ہم گوادر کتب میلہ کے تحت پی سی ہوٹل میں ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کے لیے جارہے ہیں ۔
سیکیورٹی اہلکار نے اعجاز بلوچ سے کہا کہ آپ اپنا شناختی کارڈ جمع کرائیں اور پھر چلے جائیں جس پر اعجاز بلوچ نے اپنا تعارف کرایا کہ بھائی میں مقامی بندہ ہوں اور پیپلزپارٹی بلوچستان کا جوائنٹ سیکریٹری ہوں میں اپنا شناختی کارڈ جمع نہیں کرسکتاجس پرکچھ وقت تک وہ اہلکار اپنی بات پر بضد رہا لیکن بالآخر انھوں نے اعجاز بلوچ کی بات مان کر ہمیں اوپر جانے کی اجازت دے دی۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم پی سی ہوٹل پروگرام کے بعد گوادر پورٹ کو بھی دیکھنے جائیں گے لیکن ہمیں بتایا گیا کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے سیکیورٹی کے کئی پل صراطوں سے گزرنا پڑے گا اس لیے ہم نے اپنا ارادہ بدل دیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں سنگاپور سے ایک معاہدے کے تحت گوادر پورٹ کو جدید خطوط پر استوار کرکے ایک بین الاقوامی پورٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن پیپلزپارٹی کے دور میں سنگاپور سے معاہدہ ختم کرکے گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کیا گیا۔ پھر اسی گوادر اور پورٹ کی بنیاد پر پاک چین اقتصادی راہداری کا آغاز کیا گیا ،آج گوادر پورٹ کو مکمل طور پر چین کے حوالے کردیا گیا ہے اور وہاں چینی ماہرین اور عملہ تعینات ہیں لیکن اس کے دروازے عام گوادریوں کے لیے مکمل بند کر دئیے گئے ہیں جو مقامی لوگ وہاں کام کرتے ہیں ان کی آمد و رفت بھی سیکیورٹی حصار سے گزرنے کے بعد ہی ممکن ہوتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سخت حفاظتی حصار کی موجودگی، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تعیناتی اور لوگوں کی نقل و عمل پر نگرانی رکھنے کے بعد بھی پورے شہر کو خاردار تاروں کا باڑ لگا کر قید خانہ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ یقیناً چینی ماہرین اور عملہ کی سیکیورٹی بہت اہم ہے اسے یقینی بنانا ضروری ہے اور جن اقدامات کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں وہ انہی مقاصد کے حصول کے لیے اٹھائے گئے ہیں جو کسی بھی شہر، منصوبہ یا عملہ کی حفاظت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے کئی گنا زیادہ ہیں ان حفاظتی حصار کی وجہ سے گوادر کے مقامی لوگ بہت زیادہ پریشان ہیں ۔
وہ اپنی معمول کی سرگرمیاں آزادی سے سر انجام نہیں دے پاتے، وہ ماہی گیر جو اس پورٹ کے قیام سے پہلے جس آزادی سے سمندر کے کسی بھی حصے میں جاکر مچھلیوں کا شکار کرسکتے تھے ، آج نہیں کرسکتے ۔سیکیورٹی کے نام پر کئی اہم قدرتی شکار گاہوں میں مچھیروں کو جانے کی اجازت نہیں دی جاتی جب کے کھلے سمندر میں ٹرالروں کی بھرمار کی وجہ سے مقامی ماہی گیروں کو شکار کرنے کا موقع نہیں ملتا ۔اب باڑ لگا کر مقامی آبادی کی آمد و رفت کو مزید محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ باڑ لگانے کے بعد پورا شہر اپنے مضافاتی علاقوں سے منقطع ہوجائے گا۔
قرب و جوار سے جو لوگ مزدوری کرنے گوادر آتے تھے یا گوادر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی زرعی زمینیں گوادر کے قرب و جوار میں ہیں جہاں وہ روزانہ کی بنیادوں پر آتے جاتے ہیںان کے لیے اب پہلے کی طرح معمول کی سرگرمیاں سر انجام دینا بہت مشکل ہوجائے گا۔ بلوچستان میں یہ تاثر عام ہے کہ گوادر کو وفاقی حکومت کے حوالے کیا جارہا اس سے قبل وفاقی حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے سندھ اور بلوچستان کے جزائر کو کنٹرول میں لیا تھا گو کہ سندھ حکومت اس کی سخت مخالفت کر رہی ہے جس کی وجہ سے سندھ کے جزیروں کو تحویل میں لینے کے بعد بھی منصوبے کے مطابق اب تک وفاقی حکومت کی طرف سے وہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہا۔ بلوچستان میں چونکہ اس وقت ایک کٹھ پتلی حکومت ہے۔
اس لیے کسی مخالفت یا مزاحمت کی امید نہیں کی جا سکتی لہٰذا وفاقی حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ گوادر، بلوچستان کی ساحلی پٹی یا جزائر سے متعلق چینی اور مقامی و بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے مفادات کی تکمیل کے لیے کوئی بھی فیصلہ کرسکتی ہے، باڑ لگانے کے عمل کے خلاف گوادر کے لوگوں میں سخت اضطراب اور اشتعال پایا جاتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے ۔باڑ لگانے کے بعد ایک نئی آباد کاری اسکیم شروع کی جائے گی جس میں بڑے پیمانے پر چین کے شہریوں کو گوادر میں آباد کیا جائے گا اس کے بعد مرحلہ وار مقامی لوگوں کو شہر سے بے دخل کرنے کا آغاز کیا جائے گا۔