گوادر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، دنیا کی نظریں جہاں سی پیک اور گوادر پر ہیں، وہیں بلوچستان کے باسی ان نظروں کی وحشت ناکی اور استحصال کی جال کو پہلے سے محسوس کر گئے ہیں۔گوادر کو اخبارات اور جرائد کی صفحات پر ملکی ترقی کی پہلی سیڑھی سمجھا جاتا ہے گوادرکو کشمیر کے بعد دوسرا شہ رگ قرار دیا جائے گا، سیندک ہو یا ریکوڈک سبھی تو ملکی ترقی میں کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ ترقی اور امن بلوچستان میں نظر نہیں آتے ،بلوچستان میں ترقی نظر آتی ہے تو گمشدہ افراد کی ترقی، بے روزگار افراد کی، بڑھتی خودکشیوں کی ، ماؤں اور بہنوں کی سسکیوں آہوں کی ، ماہی گیروں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی یعنی بلوچستان میں استحصال کی ترقی تو ہوتی ہے۔
مگر بلوچستان کے باسیوں نے ترقی اور سکون کو کبھی دیکھا ہی نہیں۔بلوچستان کواس وقت تین شاہراہیں ملک کے دیگر صوبوں پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ سے ملا رہی ہیں مگر یہ سنگل روڈ ہیں جن میں صرف ایک شاہراہ جو کہ بلوچستان اور سندھ کو ملاتا ہے چمن سے کراچی تک اس شاہراہ پر معتبر اداروں کے مطابق سالانہ آٹھ ہزار افراد حادثات میں شہید ہوتے ہیں کیا بلوچستان نے سیندک و ریکوڈک، گیس اور کوئلے کے ذخائر اور سی پیک سے اتنی بھی ترقی نہیں کی کہ اس کی قومی شاہراہیں دو رویہ ہوں اور بلوچستان کے باسی حادثات میں بے موت نہ مارے جائیں۔
بلوچستان کے باسیوں کو ہمیشہ سے وفاق کی طرف سے آزمایا جاتا رہا ہے کہ کیا بلوچستان کے لوگ اپنے قانونی حقوق کے لئے کھڑے ہوتے ہیں کہ نہیں؟ کبھی بلوچستان کے ساحلِ سمندر اور ساحلی وسائل کو وفاق کے ماتحت کرنے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی گوادر کو باڑ لگا کر کشمیر و فلسطین بنانے کی باتیں ہوتی ہیں ،اگر بلوچستان کی عوام اپنے قانونی حقوق کے لئے اْٹھ کھڑی ہوئی تو بلوچستان میں ایسی حکومت قائم کی جاتی ہے جو کہ غلامی کو اپنے گلے کا ہار سمجھتی ہے۔ان دنوں گوار کو سیکورٹی کے نام پر باڑ لگا کر چاروں طرف سے بند کیا جارہا ہے۔
جو کہ گوادر کے باشندوں کی آزادانہ آمد و رفت اور آزادانہ کاروبار کی راہ میں رکاوٹ ہے۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے تربت میں مکران کے لئے میگا پراجیکٹس کا تو اعلان کیا تھا مگر اس باڑ کو ان پراجیکٹس میں بیان نہیں کیا گیا تھا لیکن اس باڑ کو بھی عمران خان کے ان میگا پراجیکٹس کا حصہ بتایا جاتا ہے ۔گوادر سیف سٹی اور سیکورٹی کے نام پر گوادر کو باڑ لگانے کی کوئی بھی قانون اجازت نہیں دیتی۔سمجھ نہیں آتی کہ اسلام آباد کراچی، لاہور، روالپنڈی تو گوادر سے زیادہ ترقی یافتہ ہیںاور ان شہروں میں جو دہشتگردی کے واقعات ہوئے ،پوری پاکستان اس بات سے آگاہ ہے۔
مگر کبھی ہم نے نہیں سنا کہ اسلام آباد سیف سٹی کے نام پر اسلام آباد کو چاروں طرف سے باڑ لگایا جائے گا اور کراچی میں تو دہشتگردی کم ہوئی کیا؟ کراچی بندرگاہ سے لیکر سندھ اسمبلی تک دہشتگردی کے واقعات ہوئے لیکن کبھی بھی کراچی سیف سٹی کے نام پر کراچی کو باڑ نہیں لگایا گیا ،اسی طرح لاہور، راولپنڈی، میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے کبھی باڑ نہیں لگایا گیا ۔ گوادر میں ایک واقعہ کیا پیش آیا کہ گوادر کو یرغمال بنایا جارہا ہے ،ابھی باڑ لگے گا چند سالوں بعد اس کو مکران سے جدا کر کے وفاق ہڑپ کرلے گا۔
گوادر بلوچ اور بلوچستان کا ہے، خلیج فارس کے داخلی راستے پر واقع یہ شہر اہم تجارتی گزر گا ہے۔ گوادر کو اللہ تعالیٰ نے جہاں تجارتی گزر گاہ بنایا ہے وہیں سمندری خوبصورتی اور نفع بخش ساحل بھی دیاہے ۔ گوادر پہاڑی اور بنجر علاقہ ہے، انہی پہاڑیوں میں کوہِ باطل واقع ہے جو اس ہیمر ہیڈ کے اوپروالے کنارہ پر ہے جبکہ کوہ ِ مہدی جزیرہ نما کے مشرق میں واقع ہے- گوادر کی بندرگاہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے سٹریئجیکلی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔وادی دشت یعنی کہ گوادر اپنی خوبصورتی اور نفع بخش ساحل کی وجہ سے مکران کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے گوادر پر بہت سے سلطنتوں کی نظریں رہی ہیں۔
یہ علاقہ ہزاروں سال تک فارس کے ماتحت رہا ،گوادر کے ساحل و وسائل فارس کے بادشاہ کائوس اور افراسیاب کی نظروں بھی کھٹکتے رہے ۔ملک محمد رفاقت حسین گوادر تاریخ کے پیرائے میں لکھتے ہیں کہ مورخین کے مطابق 325 قبل مسیح میں جب سکندر ِ اعظم بر صغیر سے واپس یو نان جا رہا تھا تو اس کی بحر ی فوج کے ایک جنرل Nearchos Admiralنے اپنے جہاز مکران کی بندر گاہ پر لنگر انداز کیے ۔اس نے یہاں کے علاقے کو خشک اور لوگوں کو Ichthyophagoi (مچھلی خور) پایا اور فارسی کے فقرے ماہی خوراں (مچھلی کھانے والے) سے اس علاقے کا نام ماہی خوراں مشہور ہوا جو بعد میں بدل کر مکران ہو گیا۔
303 ق م تک یہاں سکندرِ اعظم کے جنرل Nikator Selukosکی حکومت رہی جس کے بعد یہ علاقہ موریہ سلطنت کا حصہ بن گیا۔ یہ علاقہ متعدد مقامی حکمرانوں کے درمیان بھی تختہ مشق بنا رہا اور کبھی اس پر بلیدی حکمران رہے اور کبھی اس پر رِندوں نے حکومت کی ،کبھی ملک حکمران بن گئے تو کبھی گچکیوں کو حکومت ملی، تاہم زیادہ تر حکمرانی میں بلیدی اور گچکی ہی رہے ہیں ۔ جب گچکیوں کی حکمرانی خاندانی اختلاف کی وجہ سے کمزورپڑی تو خان آف قلات میر نصیر خان اوّل نے اس پر قبضہ کیا۔
1783 ء میں مسقط کے بادشاہ سلطان بن احمد کا اپنے بھائی سعد بن احمد سے جھگڑا ہو ا جس پر سلطان بن احمد نے خان آف قلات میر نصیر خان کو خط لکھا جس میں اس نے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی ۔چنانچہ خان نے نہ صرف سلطان کو فوری طور پر آنے کا کہا بلکہ گوادر کا علاقہ اور وہاں کی آمدن بھی لامحدود وقت کے لیے سلطان کے نام کر دی، جس کے بعد ابو سعد قبیلے سے تعلق رکھنے والے سلطان بن احمد نے گوادر میں آکر رہائش اختیار کر لی۔ 1792 ء میں سلطان واپس مسقط چلا گیا اور عمان کی حکومت حاصل کر لی، 1804 ء میں سلطان کی وفات کے بعد اس کے بیٹے حکمران بن گئے۔
تو اس دور میں بلیدیوں نے ایک بار پھر گوادر پر قبضہ کر لیا جس پر مسقط سے فوجوں نے آکر اس علاقے کو وا گزار کرایا- 1838ء کی پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کی توجہ اس علاقے پر ہوئی اور برٹش حکومت نے گوادر کی بندرگاہ استعمال کرنے کے لیے سعد سلطان سے رعایت حاصل کی اور بعد میں1863ء میں گوادر میں اپنا ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کر دیا 1954ء میں پاکستان نے امریکہ کے ادارے Survey Geological States Unitedسے اپنی ساحلی پٹی کا سروے کروایا-USGSکے سروئیر ورتھ کانڈرک نے گوادر کو ایک ہیمر ہیڈ جزیرہ نما کے طو ر پر متعار ف کرایا ۔
اس کی رپورٹ میںگوادر کو قدرتی طور پر گہرے سمندر کی بندرگاہ ( port see Deep ) کے لیے انتہائی موزوں جگہ بتائی گئی۔ تاریخ اور جغرافیائی اعتبار سے گوادر کی اہمیت کو دیکھ کر پاکستان نے عمان سلطنت کے بادشاہ سعد بن تیمور سے باقاعدہ درخواست کی کہ گوادر پاکستان کو منتقل کیا جائے۔ چار سال کے تبادلہ خیال کے بعد پاکستان نے عمان سے گوادر کا علاقہ 30 لاکھ ڈالرکے عوض میں خرید لیا۔اس طرح ایک سو چوہتر سال حکمرانی کے بعد 1958 ء میں عمان نے باقاعدہ طور پر گوادر کو پاکستان کے حوالے کیا ۔
گوادر چونکہ چین اور پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک اہم حصہ ہے جس کی وجہ سے یہاں کے بندرگاہ اور ساحل اہمیت کے حامل ہیں مگر افسوس کہ گوادر کے لوگ غربت، مفلسی اور دیگر معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ ایک ایک بوند پانی کے لئے ترس رہے ہیں ۔ برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی کے مطابق گوادر آنکڑا ڈیم سنہ 1990 کی دہائی میں 25 ہزار کی آبادی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا لیکن آبادی اب تین لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور ڈیم کی گنجائش 50 فیصد سے کم ہو چکی ہے۔چیئرمین سی پیک اتھارٹی کا اخباری بیان چند دن پہلے نظروں سے گزرا کہ سی پیک سے تین ارب لوگ فائدہ اٹھائیں گے۔
سی پیک سے تین ارب لوگ فائدہ تو لیں گے مگر گوادر کے تین لاکھ لوگ کب سی پیک سے کے فوائد حاصل کریںگے اس کے امکانات نظر نہیں آتے۔چین اور پاکستان اقتصادی راہداری کا اہم حصہ گوادر کے باسی تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے ہر وقت سراپا احتجاج ہیں۔ گوادر میں کوئی یونیورسٹی ہی نہیں، یہاں کے طلبہ کئی میل کا سفر کرکے دیگر شہروں کے تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں ۔
بلوچستان کو ہمیشہ سے ساحل و وسائل کے باوجود بھی پسماندہ رکھا جانا کسی سازش سے کم نہیں ۔گوادر کو باڑ لگانا گوادر کو فلسطین و کشمیر بنانا ہے ۔امریکہ نے جنوبی ویتنام، فرانس نے الجزائر، بھارت نے مقبوضہ کشمیر ،اسرائیل نے فلسطین میں باڑ لگائی ،سب کا مقصد ایک ہے سیکورٹی نقطہ نظر۔ باڑ کلچر کی تباہی کشمیریوں، فلسطینیوں ویتنامی، الجزائریوں سے پوچھیں۔گوادر کو جنوبی ویتنام کشمیر، فلسطین، الجزائر نہ بنائیں، گوادر کو حبس زدہ شہر نہ بنائیں ، یہ ہوا کا دروازہ ہے اسے ہوا کا دروازہ ہی رہنے دیں۔