|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2020

صوبہ بلوچستان بالخصوص پنجگور، تربت، خضدار، خاران و گوادر کوسٹل ایریا میں رہنے والوں کا ذریعہ معاش ایران بارڈر سے منسلک ہے، وہ ایران بارڈر سے تیل و خوردنی اشیاء کی تجارت کرتے ہیں، کئی سالوں سے ان کا یہ کاروبار جاری ہے۔ ان کی خوراک، تعلیم، صحت سب کچھ اسی کی بدولت چل رہی ہے ، وہ اپنے بچوں کی پڑھائی، بیماری و کھانے پینے سب چیزوں کے اخراجات انہی کاروبار کے پیسوں سے پورا کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر انہیں اچھا روزگارمہیا کیا جائے انہیں کوئی درد سرنہیں کہ ایران بارڈرجا کر وہاں سے تیل لائیں کیونکہ یہ کوئی آسان کام نہیں۔

بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گاڑیوں کو لادنے کے بعد خطرناک ووسیع راستہ جوکہ 3، 4 دن کاسفر ہے، اسے طے کرنے کے بعد اپنی منزل تک جا پہنچتے ہیں، کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ 15 سے 20 دن لگ جاتے ہیں، اتنے دنوں کی بھوک پیاس کے بعد چند پیسے کما کر اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کے چولہے جلاتے ہیں۔جب تیل کے کاروبار کی بندش ہوتی ہے تو اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہاں کے نوجوانوں کی اکثریت ایرانی تیل کا کاروبار کرتے ہیں تو اگر ان کا یہ کاروبار بند ہوجائے تو لازماً یہ اپنا گھر چلانے کے لیے کوئی غلط راہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔

معاشرے میں بد امنی چوری ،ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں۔ میرے ایک سوال کے جواب میں پنجگور کے نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر حاجی صالح محمد کا کہنا تھا کہ نوے کی دھائی تک یہاں کے اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت و کھجور کا کاروبار تھا لیکن طویل قحط سالی کے بعد یہاں کھجور کے باغات کے ساتھ ساتھ تمام کاریزات خشک ہونے کی وجہ سے یہاں کی زراعت بہت متاثر ہوئی تھی، اور نوجونوں کا کاروبار ایران بارڈر سے وابستہ ہوگیا، سن نوے سے لیکر آج تک یہاں کے لوگ یہی کاروبار کرتے چلے آرہے ہیں۔

بارڈر کی بندش کے حوالے سے ان کا کہناتھاکہ سلیکٹڈ نمائندوں کی خاموشی یا رضا مندی سے یہ کام ہورہا ہے، اگر ایران بارڈر کو سیل یا باڑ لگا کر بند کرتے ہیں تو اس میں ہمارا نقصان ہوتا ہے، ایران تو قریبی ہمسائے ملکوں سے کاروبار کرتا رہے گا، سب سے بڑا نقصان یہاں کے رہنے والوں کا ہوگا، جب ان کی جیب اور پیٹ خالی ہوگاتو کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے وہ غلط راہ اختیار کر لیتے ہیں یا خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اتنا معلوم نہیں کہ مکران کے ساتھ ساتھ خاران، واشک ،خضدار اور دوسرے علاقوں میں تیل کے پمپوں میں ہمیں ایرانی پٹرول، ڈیزل دستیاب ہوتا ہے۔

پاکستانی پٹرول و ڈیزل کا یہاں نام و نشان نہیں۔صوبائی حکومت کی ایماء پر گوادر میں باڑ لگانے کے بعد مکران میں ایرانی تیل پر پابندی کے فیصلے کو بلوچستان بالخصوص مکران کے غریب عوام کا معاشی قتل قرار دیتے ہیں اور اسکی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومت عوام کو روزگار اور سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے بلوچ عوام کے خلاف پے درپے وار کرکے انہیں نان شبینہ کا محتاج بنا رہاہے ۔ بلوچ قوم کی نسل کشی کا سلسلہ بدستور جاری ہے ایک طرف روزگار کا دروازہ بند کردیا گیا ہے دوسری طرف بارڈر کو سیل کرکے بلوچ عوام سے نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے ۔

مکران کے عوام کا ذریعہ معاش زیادہ تر ایران بارڈر سے وابستہ ہے جو بڑی مشکل سے اپنا گزر بسر کرکے زندگی کے پہیے کو چلا رہے ہیں، لیکن بے حس صوبائی حکومت اپنے ہی عوام کے معاشی قتل میں براہ راست حصہ ڈال رہا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مکران کے عوامی نمائندے عوام دشمن پالیسیوں پر چپ کا روزہ رکھ کر عوامی جرم کا مرتکب ہورہے ہیں ،انکا کردار عوام دشمنی پر مبنی ہے جو اپنے ذاتی مفادات ومراعات اور اقتدار کے نشے میں اپنے ہی عوام کا معاشی قتل کررہے ہیں ۔

چیف سکیرٹری کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن صوبائی حکومت اور صوبائی وزراء کی ایماء اور اشیر باد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ نیشنل پارٹی ایرانی تیل پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے اس عمل کے خلاف عوامی رائے کو منظم کرکے سیاسی مزاحمت کریگی۔پیر محمد پندرہ 15 سالوں سے ایرانی تیل کا کاروبار کرتے آرہے ہیں، وہ کہتے ہیں میرا ایک بیٹا ہے کوئٹہ میں پڑھ رہا ہے اور دو چھوٹے بچے ہیں میں اپنے گھر کا واحد کفیل ہوں جو ایران بارڈر سے تیل لاکر پنجگور میں بھیجتاہوں، اس طرح اپنا گزر بسر کرتا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔

کئی دنوں تک مسلسل سفر کرکے کچھ پیسے کماتا ہوں، لیکن مجبور ہوں جو یہ کام میں کر رہا ہوں ،مستقبل میں میرا بیٹا یہ کام نہ کرے اسی امید پراسے پڑھا رہا ہوں تاکہ اس کا مستقبل روشن ہو، یہاں بلوچستان میں اور کوئی اچھا کاروبار نہیں ہے، اگر ہوتا تو میں کب کا یہ چھوڑ چکا ہوتا۔ اب یہ بھی بند ہورہا ہے، اگر یہ بند ہوگیا تو میرے بیٹے کی پڑھائی ایک ادھورا خواب بن کر رہ جائے گا اور ہمارے گھر کے چولہے بھی بجھ جائیں گے۔ اس کاروبار کی بندش ہمیں جیتے جی مارنے کے برابر ہے۔ ۔۔ خدارا۔۔۔! ہمیں بے روزگار نہ کیجئے ، ہم نے جو خواب دیکھے ہیں انہیںمت توڑئیے۔