|

وقتِ اشاعت :   January 5 – 2021

بلوچستان کے کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے قتل نے صوبے کی فضا کوایک بار پر سے سوگوار کر دیا۔ قتل ہونے والے مزدور ضلع بولان کے علاقے مچھ کے کوئلہ فیلڈ میں مزدوری کر کے زندگی کی گاڑی کو چلا رہے تھے۔پولیس کے مطابق یہ واقعہ کوئٹہ سے 80 کلومیٹر دور مچھ میں گشتری کے مقام پر پیش آیا جہاں نامعلوم شدت پسندوں نے کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ سورہے تھے۔حملہ آوروں نے رہائشی کوارٹرز میں موجود کان کنوں کی شناخت کے بعد دس مزدوروں کو الگ کیا اوران کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں تیز دھار آلے سے قتل کر دیا۔

اس واقعے کے بارے میں سن کر میرے خیالات میں وہ ہزاروں چہرے گھوم گئے جو بلوچستان میں کان کنی جیسے مشکل پیشے سے منسلک ہیں ، سوچ رہی ہوں کہ جب دہشت گرد ان مزدوروں کی شناخت کر رہے ہونگے تو یہ بے بس مزدور شاید خطرے کو بھانپ گئے ہو ںاوراپنے طور پر خود کو بچانے کی کوشش کی ہوں، شدت پسندوں کو اپنے بچوں اور اللہ کا واسطہ دیا ہو اور جب کوئی راہ دکھائی نہ دی ہو تو اپنی زندگی کے ان آخری لمحات میں اپنا قصور اور لواحقین کا سوچا ہو۔ اس دلخراش واقعہ نے سب ہی کو افسردہ کر دیا میڈیا پر وزیر اعظم سے لیکر بلوچستان کے تمام وزراء کے تعزیتی بیانات اور واقعہ کی مذمت کی سرخ پٹی چلتی دکھائی دی۔

اور دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے اپنوں سے دور مزدوری کرنے والوں کے بہیمانہ قتل پر لواحقین نے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ یہ ایک قابل افسوس واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور ساتھ ہی صوبائی حکومت کے سیکیورٹی کے بلند و بانگ دعوئوں کی حقیقت بھی سامنے ہے۔ اس سب معاملے پر اب دو تین دن کھل کر بات ہوگی تاہم وقت کے ساتھ یہ واقعہ بھی دیگر واقعات کی طرح بھلا دیا جائے گا۔ دہشت گردی کے ایسے واقعات سے صوبے میں اب کوئی طبقہ محفوظ نہیں مگر ان مزدورں کی بات کچھ الگ اس لیے ہے کہ یہ مزدور اگر دہشت گردی کا نشانہ نہ بنتے تب بھی چہرے پر کوئلے کے سیاہ دھبے لیے۔

انہوں نے کوئلہ کی کانوں میں نامساعد حالات سے لڑتے لڑتے ختم ہو جانا تھا کیونکہ کوئلے کی یہ کانیں ان مزدورں کی قبروں سے کم نہیں جہاں کبھی دھماکے اور کبھی گیس بھرنے سے ہزاروں مزدور اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور جب ایسی کوئی کان بیٹھ جائے تو اکثر تو ان کانوں میں دب جانے والوں کی لاشیں تک نہیں ملتیں۔بلوچستان میں یہ کان کن جن نا مساعد حالات میں کام کرتے ہیں وہ بیان سے باہر ہے مگر بدقسمتی سے کوئلے کی کانیں اور جان پر کھیلتے کان کنوں کے بارے میں صرف اس وقت بات ہوتی ہے جب کوئی افسوسناک واقعہ پیش آتا ہے۔

بلوچستان میں اس وقت چالیس ہزار سے زائد افراد کان کنی سے وابستہ ہیں جو بنا حفاظتی آلات کے سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیر کر 1700 فٹ سے بھی زیادہ گہرائی سے کوئلہ نکالتے ہیں۔ پاکستان کے کوئلہ کانوں سے مجموعی طور پر سالانہ تین اعشاریہ پانچ ملین ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے جس میں بلوچستان سے نکالا جانے والے کوئلہ ایک اعشاریہ پانچ ملین ٹن ہے۔ صوبے میں آٹھ سو سے زائد کانیں ہیں جہاں کام کرنے والے مزدوروں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ہزاروں فٹ گہرائی میں کام کر کے کالے ہیرے نکالنے والے مزدورں کی قسمت میں تو صرف اس کی کالک ہی آتی ہے۔

جبکہ ان کاکنوں سے وابستہ ٹھیکیدار لاکھوں کماتے ہیں ان کانکنوں کی دیہاڑی آٹھ سو سے ہزار روپے ہوتی ہے جبکہ ان کی زندگیوں کی کوئی گارنٹی نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2018 تک بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں 318 کان کن جاں بحق ہوئے جبکہ گزشتہ دو سالوں کے دوران سو سے زائد کان کن مختلف حادثات کا شکار ہوئے تاہم سال نوبھی ان مزدورں کے لیے ان کی قسمت کی طرح سیاہ ہی ثابت ہوئی۔ نئے سال کے تیسرے ہی روز معصوم کان کن دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔

اگر بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں مزدور ی کر رہے ان کان کنوں سے پوچھا جائے کہ انہیں کن مصائب کا سامنا ہے تو کوئلہ کان میں زہریلی گیس کے اخراج یا دھماکوں کا خطرہ ان کے اہم مسائل ہیں اور اگر قسمت ساتھ دے اور یہ مزدور ان واقعات میں زندہ بچ جائیں تو وقت گزرنے کے ساتھ اْن کے ہاتھ پاؤں کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ سانس کی مختلف بیماریاں بھی ان کانکنوں میں عام ہیں ۔بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ان کان کنوں کے لئے حفاظتی تدابیر ہیں اور نہ ہی ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی روڈ میپ تیار کیا گیا ہے۔

بلوچستان میں اٹھارہ سو نوے میں ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں کوئلہ دریافت کیا گیا جس کے بعد مچھ، چمالنگ،مارواڑ اور دیگر علاقوں سے بھی کوئلہ نکالا جانے لگا۔ چمالنگ میں کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر ہیں جہاں اس وقت ایک اندازے کے مطابق بیس ہزار سے زائد کان کن کام کر رہے ہیں۔ انیس سو تیئس میں انگریز سرکار نے مائین ایکٹ بنایا اس ایکٹ کے تحت کوئلہ کان کے نزدیک ہر وقت ایمبولینس موجودگی کو لازم قرار دیا گیا اس کے علاوہ کوئلہ کان کے نزدیک ایک ڈسپنسری اور کوالیفائیڈ ڈاکٹر کا ہونا بھی ضروری تھا۔

جبکہ کان کنوں کے لئے خوارک اور پینے کے صاف پانی جیسے بنیادی ضروریات کو بھی مد نظر رکھنے کی شرائط لاگو تھیں تاہم آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ایسا کوئی انتظام نظر نہیں آتا۔ کوئٹہ میں کوئلہ اٹھارویں صدی میں دریافت ہوا تھا، لیکن اس کیلئے قانون سازی 1923ء میں کی گئی اس وقت سے اب تک ان مزدورں کے کیلئے کوئی خاطر خواہ قانون سازی نہیں ہوئی۔ پاکستان میں گزشتہ دس سالوں کے دوران مختلف حادثات میں ایک ہزار سے زائد کان کن جاں بحق ہوچکے ہیں مگر پوچھنے والا کوئی نہیں۔ مقامی افراد کے مطابق کوئلے کی کانیں بااثر لوگوں کی ہیں۔

حادثات کی صورت میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ ان کو سیفٹی کے لوازمات کو یقینی بنانے کا بھی پابند نہیں بنایا جاتا۔بلوچستان میں جدید صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے کوئلے کی کان کنی یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے جس سے درجنوں لوگ وابستہ ہیں مگر جب سے صوبے میں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال سامنے آنے لگی ہے تب سے ان مزدورں کی زندگیوں کو لاحق خطرات میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے۔ مچھ میں بھی ایسے واقعات کے تسلسل سے مزدورں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے یہ مزدور ہمارے لوگ ہیں۔

ایسے لوگ جن کے چہرے اور ہاتھ پائوں کی اصل رنگت وقت کے ساتھ اپنا وجود کھو دیتی ہے مگر ان کی آنکھوں کے خوابوں میں زندگی کی امید ہوتی ہے کوئلہ کی صنعتوں کا پہیہ چلانے والے یہ مزدور آج سوال کر رہے ہیں کہ کیا ان کی جانیں اس قدر سستی ہیں کہ ایک طرف وہ سینکڑوں فٹ گہرائی میں بنا سہولیات کے کام کرتے کرتے دم توڑ دیں اور دوسری جانب ان کی زندگیاں دہشت گردوں سے بھی محفوظ نہ ہوں تو قصور ان کی غربت ہے یا کہ حکومت کی بے حسی ؟