|

وقتِ اشاعت :   January 7 – 2021

1857 کو انگریز سامراج سے آزادی ہند کے بعد مسلمانوں کی رہنمائی کیلئے اورآزادی ہند کی مسلح جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کیلئے سیاسی جدوجہد کا وسیع ترین نظام کا قیام’’ جمعیت علماء ہند‘‘ کے نام سے 19 نومبر 1919ء کو عمل میں لائی گئی جس کی بنیاد شیخ الہند مولانا محمود حسن عثمانیؒ نے رکھی۔ اس جماعت کے زیر سایہ علماء ہند سیاسی جدوجہد کرتے رہے لیکن جمعیت علماء ہند تقسیم ہند کے فارمولے سے متفق نہیں تھے اسی وجہ سے 1945کو آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت پر ایک دھڑا قائم ہوا جس کو جمعیت علماء اسلام کا نام دیا گیا۔

جمعیت علماء اسلام کا بنیاد مولانا شبیر احمد عثمانی نے رکھی۔ اور تحریک پاکستان کو علماء کی شکل میں تقویت بخشی 14 اگست 1947 کو پاکستان ایک آزاد مسلم ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا پاکستان بننے کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی نے پاکستان کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کنے کی جدوجہد شروع کی۔ چنانچہ 1953 میں جمعی علماء اسلام مغربی پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا اور علماء کرام نے پاکستان میں سیاسی جدوجہد شروع کی 1958 کو جنرل ایوب نے مارشل لاء لگادی۔ اس دوران مدارس، مساجدذ کی تحفظ کیلئے نظام العلماء کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی۔

1962 میں مارشل لاء ختم کیا گیا سیاسی جماعتیں دوبارہ بحال ہونے لگیں حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے بحیثیت قائم مقام امیر جمعیت کو ایک نئی شکل دی ۔ مشرقی پاکستان میں بھی صوبائی جماعت قائم کردی گئی مئی 1967 کو مغربی اور مشرقی نمائندگان جمعیت کا لاہور میں اجلاس ہوا اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کا مرکزی انتخابات عمل میں لائی گئی جس میں حضرت ملانا محمد اللہ درخواستی امیر مقرر ہوگئے۔ چنانچہ 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کا واقع پیش آیا سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار پیپلز پارٹی نے سنبھال لی اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے وزیر اعلیٰ بن گئے وفاقی حکومت کی غیر جمہوری طرز عمل نے سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر اکٹھا کیا اور متحدہ جمہوری محاز‘ معرض وجود میں آیا۔

1973 میں ’متحدہ جمہوری محاذ‘ نے بحالی جمہوریت کی تحریک کو 1974 کو ختم نبوت کی تحریک چلی اور مولانا مفتی محمود کو اپوزیشن لیڈر مقرر کردیا گیا اور قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر مرزائیوں (قادیانیو) کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا 1977 میں ملک میں انتخابات کا چرچا نما جس کے سب ’’ متحدہ جمہوری محاذ‘‘ کو وسعت دی گئی اور ’پاکستان قومی اتحاد‘ مولانا مفتی محمودؒ کو سونپی گئی جب انتخابات کے نتائج آگئے تو اس تحریک میں شامل جماعتوں نے دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ماننے س انکار کردیا اور اس تحریک کو نظام مصطفی کا نام دے دیا گیا ۔

اور حکومت کے خلاف تحریک شروع کی یہ مذاکرات کامیابی کے قریب تھے ۔ کہ ایک بار پھر مارشل لاء کا اہتمام کردیا گیا اور 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر اقتدار سنبھال لیا۔ 1980 میں سیاسی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی نے ’ تحریک بحالی جمہوریت کے نام سے ایک نئی اتحاد بنائی ۔ اس اتحاد کے ڈیکلریشن پر دستخط ہونے سے قبل 14 اکتوبر 1980 کو جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹائون کراچی میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ مفتی صاحب کے رحلت کے بعد اس بات پر اختلاف سامنے آئی کہ کون امیر اور کون جنرل سیکرٹری ہوگا۔

اکثر علماء کرام مولانا فضل الرحمن کو امیر بنانا چاہتے تھے۔ اور ایک دھڑا مولانا عبداللہ درخواستی کو امیر بنانا چاہتا تھا کیونکہ مولانا صاحب ابھی صرف 27 سال کے نوجوان تھے ۔ مخالف گروپ میں مولانا فضل الرحمن کے استاد مولانا سمیع الحق شہید بھی شامل تھے۔ اختلافات بڑھتے ہوئے عبدالہ درخواستی کے سربراہی میں ایک دھڑا بن گیا اور بعد میں جمعیت علماء اسلام پاکستان نے مولانا عبداللہ درخواستی کو راضی کیا اور اتفاق سے مولانا عبداللہ درخواستی جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر جبکہ مولانا فضل الرحمن جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔

مولانا فضل الرحمن کی سیاسی سفر 1980 کے آخر میں شروع ہوا۔ 1981 میں ’’تحریک بحالی جمہوریت‘‘ کا حصہ بنے۔ چونکہ مفتی محمودؒ بھی اس تحریک کا حصہ بننا چاہتے تھے لیکن ڈیکلریشن پر دستخط ہونے سے قبل وہ فانی دنیا سے رحلت کرگئے مفتی صاحب کے قدم پر چلتے ہوئے مولانا صاحب نے ’تحریک بحالی جمہوریت‘ میں حصہ لیا سیاسی عمر ایک سال تھی لیکن بہت جلد انہوں نے اپنے آپ کو سیاسی رنگ میں مکمل رنگ دیا۔ چونکہ مولانا صاحب نے پارٹی میں جلد ہی قائدانہ کردار ادا کی اپنے اساتذہ کرام کو بہت کم عمری میں پیچھے چھوڑ گئے 1980 کے دہائی کے وسط میں جماعت علماء اسلام پاکستان سے ایک دھڑا جمعیت علماء اسلام (س) کے نام الگ ہوگئی۔

اور اس کی قیادت مولانا سمیع الحق شہید کررہے تھے اور میڈیا نے جمعیت علماء اسلام پاکستان کو جمعیت علماء اسلام (ف) کے نام سے منسوب کی لیکن اصل میں جمعیت علماء اسلام پاکستان ہی رہا۔ جمعیت علماء اسلام (س) کی قیادت کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق 1985 میں سینٹ کے رکن منتخب ہوئے اور 1991 میں ایک بار پھر اگلے 6 سال کیلئے سینیٹر منتخب ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان کا بھی مولانا سمیع الحق سے قریبی تعلق رہا ۔ جس کی وجہ سے عمران کو ’’طالبان خان‘‘ کا لقب دیا گیا۔ اقتدار میں آتے ہی عمران خان نے سینیٹ کے انتخابات میں مولانا سمیع الحق کا حمایت کا اعلان کیا۔

اس کے باوجود مولانا سمیع الحق ہار گئے۔ جمعیت علماء اسلام پاکستان نے الگ ہوتے ہی جمعیت علماء (س) صرف خیبر پختونخواہ تک محدود رہی لیکن وہ بھی مولانا سمیع الحق کے شکل میں اس کے علاوہ جمعیت س کی کوئی خاص اہمیت نہ رہی اب اس کی قیادت اس کے فرزند حامد الحق کررہے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) میں ہر پانچ سال بعد داخلی سطح پر انتخابات کئے جاتے ہیں تاہم مولانا فضل الرحمن 1880 سے بدستور جمعیت کے امیر آرہے ہیں جمعیت علماء اسلام (ف) کا اثر و رسوخ بلوچستان اور خیبر پختونخواء میں ہے۔

جس سے ہر انتخابات میں قومی اور صوبائی سیٹیں جیت جاتی ہیں سندھ اور پنجاب میں عوامی طاقت رکھی ہیں لیکن وہاں پر کوئی صوبائی یا قومی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی ہے۔جمعیت علماء اسلام نظریاتی کا قیام جمعیت علماء اسلام (ن) جمعیت علماء اسلام (ف) سے اختلافات کے سبب ایک دھڑے کی شکل میں الگ ہوئی۔ سن 2008 میں حافظ فضل محمد بڑیچ اور مولانا عصمت اللہ کی سربراہی میں جمعیت علماء اسلام (ن) کی بنیاد رکھی گئی۔ جو افغانستان طالبان کی بھرپور حمایت کرتی ہے یہ جماعت اس وقت وجود میں آئی جب عام انتخابات ہورہے تھے۔

اس دوران جمعیت (ن) نے صوبے بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کئے ژوب سے مولانا عصمت اللہ نے جمعیت (ف) گروپ کے رہنماء مولانا محمد خان شیرانی کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور ژوب سے عبدالخالق بشر دوست نے بھی کامیابی حاصل کی اور بلوچستان کے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور بلوچستان کابینہ میں وزیر بلدیات کی حیثیت سے شامل ہوئے رفتہ رفتہ ان کی تنظیم بلوچستان کے کونے کونے تک میں قائم ہوگئی۔ خیبر پختونخواء پنجاب، سندھ تک اپنی دعوت پھیلادی۔ 2013 کے عام انتخابات میں اگرچہ جمعیت نظریاتی کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔

لیکن جمعیت (ف) کو مجموعی طور پر بلوچستان میں کافی نقصان پہنچایا۔ جمعیت علماء اسلام کے بانی حافظ فضل بڑیچ مرحوم معروف شخصیت تھے وہ سینیٹر بھی رہ چکے تھے ان کا شمار بلوچستان کے ماہر مدرس میں ہونا تا اس کے وفات کے بعد جمعیت (ن) میں سیاسی خلا پیداہوا۔ اور پھر بھی جمعیت (ن) کے رہنمائوں نے جمعیت کو منظم کرنے کی بھرپور کوشش کی آخر کار مولانا عصمت اللہ نے اپنے دیگر ہم خیال ساتھیوں کے ہمراہ جمعیت علماء اسلام (ف) سے انضمام کی کوشش شروع کی 14 جنوری 2016 کو جمعیت علماء اسلام (ن) کے مرکزی مجلس شوریٰ نے جمعیت (ف) سے دوبارہ انضمام کی مشروط اجازت دے دی۔ 25

فروری کوئٹہ میں مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں انضمام کا اعلان کیا گیا تاہم جمعیت ن میں دراڑ، پیدا ہوگئی اور جمعیت ف کے انضمام کوجمعیت نظریاتی دیگر ساتھیوں نے مولانا عصمت اللہ کی ذاتی فیصلہ قرار دیتے ہوئے انضمام سے انکار کردیا اور جمعیت نظریاتی بھی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ایک گروپ مولانا عصمت اللہ جو کہ انضمام میں چلے گئے دوسری میں مولانا خلیل احمد مخلص، عبدالقادر لونی، عبدالستار چشتی، مولانا محمو الحسن قاسمی ودیگر شامل تھیں اور اب بھی جمعیت نظریاتی بلوچستان میں اپنی جدوجہد کررہی ہے۔

اور مولانا عصمت اللہ کے جانے سے نظریاتی میں سیاسی خلا پیدا ہوا اور 2018 ء کے انتخابات میں کوئی صوبائی یا قومی اسمبلی کے سیٹ پر کامیاب نہ ہوئے، اس سے ہر نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان وہ واحد جماعت ہے جو شروع ہی سے کامیابی کے راہ پر گامزن ہے اور جمعیت (س) اور جمعیت (ن) کی شکل میں جو گروپ بنائے گئے آخر کار ان کی پارٹی نہ ہونے کے برابر رہی اور بانی اراکین کے جانے سے پارٹی کمزور ہوتی جارہی ہیں۔

مولانا محمد خان شیرانی ودیگر رہنمائوں کا جمعیت علماء اسلام (ف) سے انخلاء

جمعیت علماء اسلام ف نے گزشتہ دنوں 25 دسمبر 2020 کو اپنے چار سینیٹر رہنمائوں کو پارٹی نے نکال دیا تھا جس میں بلوچستان تعلق رکھنے والے سابق چیئر مین نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی اور جمعیت علماء اسلام کے سابق مرکزی ترجمان مولانا حافظ حسین احمد، اور خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی مولانا شجاع الملک اور سابق سینیٹر مولانا گل نصیب خان شامل تھیں مولانا محمد خان شیرانی نے موقف اپنایا ہے کہ مولانا فضل الرحمن سلیکٹڈ ہے اور دھاندلی کے ذریعے امیر منتخب ہوئے ہے اور پارٹی کو اپنی ملکیت سمجھ کر پارٹی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔

دیگر رہنمائوں کا بھی یہی مئوقف ہے کہ پارٹی کو دستور کے مطابق اگر ماضی پرنظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ مولانا محمد خان شیرانی خود پارٹی کے اندر آزادانہ انتخابات کے قائل نہیں رہے ہیں وہ خود جمعیت بلوچستان کے تقریباً 32 سال تک امیر رہے ہیں اس کے بعد جب انٹری پارٹی الیکشن ہار گئے۔ تو پارٹی میں اختلافات کی راہ اپنالی ۔ صوبائی امری ہوتے ہوئے من مانی کے فیصلے کرتے تھے اور اختلافات اس حد تک بڑھ گئی کہ بلوچستان کے اکثر اضلااع میں شیرانی گروپ کے نام سے الگ اجلاس ہوتے رہے حتی کہ الیکشن میں شیرانی گروپ کا الگ دفتر ہوا کرتا تھا ۔

جو کہ مولانا فضل الرحمن کے گروپ سے الگ رہتا تھا لیکن پھر بھی جمعیت ف نے انہیں ڈیل دیا تھا اور اختلافات پارٹی تک محدود تھے جب آپ نے میڈیا پر آکر مولانا فضل الرحمن کی سلیکٹڈ اور اسرائیل کی حمایت کی جو کہ جمعیت علماء اسلام کے دستور کی مخالف بیان تھی اس کے بعد جمعیت علماء اسلام نے مولانا محمد خان شیرانی بشمول ساتھیوں پارٹی سے نکال دیتے۔ پارٹی نے نکالنے کے بعدمولانا محمد خان شیرانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم جے یوآئی ف کا حصہ نہیں بلکہ ہم ہمیشہ جمیعت علماء اسلام پاکستان کے دستور کے مطابق رکن ہے۔

اور رہیں گے ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن نے الیکشن کمیشن میں جمعیت علماء اسلام ف کے نام سے ایک الگ گروپ بنائی ہے جوکہ ہم اس کا حصہ نہیں ہماری پارٹی جمعیت علماء اسلام پاکستان ہے جوکہ ہمیں اکابرین سے وراثت میں ملی ہے دوسری جانب الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن میں جمعیت علماء اسلام ف کے نام سے کوئی پارٹی رجسٹرڈ نہیں بلکہ الیکشن میں انتخابی فہرست میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کے نام سے جس کا انتخابی نشان کتاب ہے 34 ویں نمبرہے اور الیکشن کمیشن کے پارٹیز لسٹ میں 31 ویں نمبر پر رجسٹرڈ ہے۔

ان کے مطابق جمعیت علماء اسلام پاکستان کے نام سے رجسٹرڈ پارٹی کا سربراہ مولانا فضل الرحمن ہے اور اس نام سے کوئی دوسری پارٹی نہیں بن سکتی اور نہ رجسٹرڈ ہوسکتی ہے ان کے مطابق مولانا محمد خان شیرانی کو کسی اور نام سے پارٹی رجسٹرڈ کرانی ہوگی اور اسے انتخابی نشان کتاب تھی نہیں مل سکے گا اسے کوئی اور چیز الاٹ کیا جائے گا۔ اگر شیرانی صاحب اپنی پارٹی کسی اور نام سے رجسٹرڈ کرے گی تو اس کا مستقبل کیا ہوگا اس پر سنیئر صحافی سلیم صافی کہا کہنا ہے کہ یہ پارٹی کے سینیٹر اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ان کے مطابق اس وقت یہ سب عمر کے جس حصے پر ہے۔

اب کوئی بڑی تحریک نہیں چلاسکتے اور نہ ان میں سے کسی کی ایسی شخصیت ہے کہ وہ جمعیت علماء اسلام کیلئے بڑا چیلنج بن سکے۔ ان کے مطابق ان رہنمائوں نے اختلافات کا اظہار کرنے اور الزامات عائد کرنے میں اتنی دیر کردی ہے کہ اب ان کی بات کا کوئی زیادہ یقین نہیں کرے گا۔ دوسری جانب اگر ماضی پر نظر ڈالی ائے کہ اس سے پہلے بھی جمعیت علماء اسلام سے اختلافات کی وجہ سے جو گروپ الگ ہوئے ہیں۔ ان کی جماعت کسی خاص صوبے یا علاقے تک محدود رہی اور بانی رکن کے جانے سے وہ جماعتیں مزید کمزور ہوتی جارہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیرانی گروپ بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی۔