بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو عوام کی ہمدردیاں نصیب ہوئیں جس کے نتیجے میں تیرہ برس سے سندھ میں یہ جماعت تخت نشین ہے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے حالیہ دنوں اپنا وژن بیان کرتے ہوئے کہا کہ وقت لگے گا اور پھر کراچی روم بنے گا۔دانشور و ادیب اشفاق احمد کہتے ہیں جب میں اٹلی کے شہر روم میں مقیم تھا تو ایک بار اپنا جرمانہ بروقت ادا نہ کرنے پر مجھے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ جب جج نے مجھ سے پوچھا کہ جرمانے کی ادائیگی میں تاخیر کیوں ہوئی تو میں نے کہا کہ میں ایک ٹیچر ہوں اور کچھ دنوں سے مصروف تھا اس لئے جرمانہ ادا نہیں کر پایا۔
اس سے پہلے کہ میں اپنا جملہ مکمل کرتا، جج اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور بآواز بلند کہنے لگا ’’عدالت میں ایک استاد تشریف لائے ہیں!‘‘ یہ سنتے ہی عدالت میں موجود سب لوگ کھڑے ہو گئے۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ اس قوم کی ترقی کا راز کیا ہے۔بلاشبہ قوموں کی ترقی کا واحد راستہ تعلیم ہی ہے۔ یقیناً بلاول بھٹو زرداری کی خواہش ہوگی کہ ان کا صوبہ روم کی طرح ترقی کرے مگر اس ترقی کی بنیاد تعلیم و تحقیق ہے۔اعداد و شمار کے لحاظ سے سندھ میں شرح خواندگی تقریباً ساٹھ فیصد ہے۔صوبائی حکومت بجٹ کا تقریباً 25 فیصد تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔
دیگر محکموں کی طرح تعلیم کے محکمہ پر بھی کرپشن کی سیاہ آلود چادر نے مستقبل کے معماروں کو تاریکیوں میں دھکیل دیا ہے۔سندھ حکومت کے تمام محکموں میں اگر کرپشن کا مقابلہ ہو تو اس دوڑ میں تعلیم کا محکمہ پہلے نمبر پر ہی آئے گا یہاں تک کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ بھی کرپشن و بدعنوانی کا گڑھ ہے۔ نصابی کتب کی چھپائی اور اسے بچوں تک پہنچانے کے تمام مراحل میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے. سندھ میں اس وقت تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے لیکن اب تک کئی اسکول چار دیواری، پینے کے صاف پانی، بجلی، بیت الخلا، ،لیبارٹری ،لائبریری، کھیلوں کے میدان، اساتذہ، غیر تدریسی عملے سے محروم ہیں۔
گھوسٹ ملازمین ،گھوسٹ اسکول اور اساتذہ کی تعلیمی قابلیت پر بھی سندھ حکومت نے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت ہمیشہ سے بیڈ گورننس، بدعنوانی و کرپشن کے الزامات کے زد میں رہی ہے اس کی بڑی وجہ سندھ حکومت کے ماتحت ادارے ہی ہیں جن پر پیپلز پارٹی کی حکومت قابو نہیں پا سکی ان میں سرفہرست محکمہ تعلیم اور اس کے ذیلی ادارے ہیں۔جدید دور میں ترقی کا سفر حصول علم اور فروغ علم کے بغیر جاری نہیں رہ سکتا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں سندھ کے تعلیمی شعبہ کی زبوں حالی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبہ بھر کے سرکاری اسکولوں میں سائنس کے مضامین پڑھانے کے لئے ماہر اساتذہ ہی نہیں۔
روم کی ترقی کا راز یہی ہے کہ ان کی نظر میں تعلیم کا بنیادی مقصد انسانی ذہن کی بہتر نشوونما، اخلاقیات اور انسانی قدروں کو سنوارنا ، معاشرتی رویوں کو درست رخ کی طرف موڑنا اور انسانی ذہن کی علم کے ذریعے آبیاری کرنا تاکہ نئی نسل معاشرے کے لئے مفید شہری ثابت ہوسکے۔ جو قومیں علم حاصل کرلیتی ہیں وہی حقیقتاً ترقی اور کامیابی کی منازل تیزی سے طے کرنے کے قابل بن جاتی ہیں۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے۔ سندھ میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کے پالسیی سازوں نے تعلیم کو اہمیت نہیں دی اور اس شعبے کی حالت کو سدھارنے کیلئے خاطر خواہ عملی اقدامات نہیں اٹھائے ۔اس صورت حال میں بلاول بھٹو زرداری کس طرح سندھ کے دارالحکومت کو روم بنائیں گے جس کی بنیاد ہی کمزور ہو؟
شعبہ تعلیم کی حالت زار دیکھ کر پی پی چئیرمین کے بیان پر یہ محاورہ یاد آگیا کہ روم جلتا رہا اور نیرو بانسری بجاتا رہا۔