|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2015

کوئٹہ( آئی این پی) صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کوئی ناراض بلوچ نہیں بلکہ عوام کے جان ومال کو تحفظ پہنچانے والے دہشت گرد ہیں ، گوادر میں چیئرمین شہادت قابل افسوس ومذمت واقعہ ہے ، ملک بھر کی طرح آپریشن ضرب عضب کی ردعمل میں بلوچستان میں بھی واقعات رونما ہورہے ہیں ، پولیو ورکرز پر حملے کی رپورٹ وزیراعلیٰ بلوچستان نے آئی جی پولیس سے طلب کرلی ہے اس میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ میر سرفراز بگٹی نے گوادر میں یونین کونسل کے نومنتخب چیئرمین کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ کی مذمت کی اور کہا کہ اس وقت پورا صوبہ اسٹیٹ آف وار میں ہے ایک طرف آپریشن ضرب عضب جاری ہے جس کے تحت پوری قوم کا ساتھ پاک فوج اور حساس اداروں کو حاصل ہے اس آپریشن کے رد عمل میں ہونے والی واقعات کے تدارک کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں اور صوبہ بھر میں سیکورٹی کی صورتحال پر خاص توجہ دی جارہی ہے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالت کا قیام بلوچستان میں بھی نیشنل سیکورٹی پلان کے تحت عمل میں لایا جائے گا ۔ دہشت گردوں کے کیسز کو دہشت گردی عدالت اور دیگر اسپیشل کورٹس بھیجا جائے گا ۔ پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار کے قتل کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ نے واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے اس سلسلے میں آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کرلیا گیا ہے ہم ایسے عناصر کو کسی صورت معاف نہیں کریں گے بلکہ ان کے خلاف بھر پور کاروائی کی جائے گی ۔ کوئٹہ اور گردونواح میں پولیس اور سیکورٹی فورسز نے کامیاب سرچ آپریشنز کئے ہیں جس کے دوران ملزمان گرفتار اور مارے بھی جاچکے ہیں ۔ا نہوں نے کہاکہ بلوچستان میں کوئی ناراض بلوچ نہیں بلکہ عوام کی جان ومال کو نقصان پہنچانے اور دیگر واقعات میں ملوث ملزمان دہشت گرد ہیں ۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے ممکن بنایا جائے تو بہتر ہوگا اس سلسلے میں گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان کو اختیارات دیئے گئے ہیں تشدد جس بھی شکل میں ہو یہ ناقابل قبول اور دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کا کیپٹن ڈیرہ بگٹی میں نہیں بلکہ صحبت پور کے علاقے میں شہید ہوا ۔ انہوں نے کہاکہ امن وامان کے قیام کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے بعض لوگوں کی گاڑیوں کی چیکنگ کرتے ہیں جو معمول کی کاروائی ہے تاہم سینئر صحافی کے والد کی نعش کو روکنے کی واقعہ کی نوٹس لی جاچکی ہے ۔