بھارت کا رویہ پاکستان کے خلاف ہر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ سخت ہوتا جارہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معمول کے مطابق پاکستانی سفارت کار نے کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کی اور باہمی دل چسپی کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا اور اس پر بھارت کا ردعمل توقع کے برخلاف زیادہ سخت اور شدید تھا اور بھارت نے پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کرنے سے انکار کیا اور منصوبہ کے مطابق مذاکرات کو منسوخ کردیا۔ صرف اسی بات پر بھارت نے اکتفا نہیں کیا بلکہ سرحدی علاقوں، ورکنگ باؤنڈری پر کشیدگی بڑھادی۔ سرحدی علاقوں پر جارحانہ حملے تیز کردیئے اور آئے دن سرحدی شہروں اور دیہاتوں پر شیلنگ اور بمباری کرتا رہتا ہے۔ اس میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ اس کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ پاکستان میں بعض حلقے انڈین کانگریس کے برخلاف بی جے پی کے حمایتی رہے ہیں۔ خصوصاً واجپائی کے لاہور کے دورے کے بعد۔ بلکہ صدر پرویز مشرف نے بھی کوششیں تیز کیں کہ کشمیر کا کوئی حل نکالا جائے۔ مگر آج بی جے پی کے رویے سے وہ تمام پاکستانی پشیمان ہیں کیونکہ بی جے پی نے زیادہ سخت زبان اور سخت رویہ اپنالیا ہے جن کے ان حضرات یا طبقہ کو تصور ہی نہیں تھا۔ دوسرا روشن خیال طبقہ پہلے سے ہی بی جے پی کی پالیسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا آیا ہے اور اس کو انتہا پسند اور فرقہ پرست ہندو جماعت تصور کرتا رہا ہے اور ان کی پالیسیوں کی اعلانیہ مخالفت کرتا آرہا ہے بلکہ اس حد تک کہ خطے کے امن کو اگر کبھی خطرات لاحق ہوں گے تو وہ صرف اور صرف بی جے پی کی وجہ سے ہوں گے۔ ہندو فرقہ پرست جماعت کشمیر کا ایک ہی حل چاہتا ہے کہ فوجی قوت کی زور پر آزاد کشمیر پر قبضہ کیا جائے یا تمام متنازعہ علاقوں خصوصاً گلگت بلتستان پر فوجی قبضہ کیا جائے۔ اوبامہ کے دورہ بھارت کے بعد بھارتی رہنماؤں اور حکومتی رہنماؤں کا رویہ بالکل بدل گیا ہے۔ اب سے وہ اپنے آپ کو پورے خطے کی سپر طاقت سمجھنے لگے ہیں اور پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک پر حکم چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں پورے خطے پر جنگ کے بادل غالب نظر آئیں گے امن کو کبھی یہ موقع نہیں ملے گا کہ کشمیرکا ایک پرامن حل تلاش کیا جائے جو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق ہو۔ پاکستان میں بعض حلقے یہ جائز توقعات قائم کئے ہوئے تھے کہ اوبامہ اور امریکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے بھارت پر دباؤ ڈال کر اقوام متحدہ کے قرار دادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔ اس کے بعد بھارت کو اقوام متحدہ کا مستقل رکن بنالیا جائے تو ان لوگوں کو اعتراض نہیں ہوگا یا اس کی مزاحمت میں کمی آسکتی ہے مگر امریکہ نے پاکستان کے توقعات کے خلاف فیصلے کئے جو یقیناً امن اور خطے کی سلامتی کے مفاد میں نہیں ہوں گے۔ بلکہ اس کا مقصد صرف یہ نظر آرہا ہے کہ چین اور پاکستان کے خلاف ایک متوازی اتحاد بھارت اور امریکہ نے قائم کرلیا ہے کہ چین کو بحر بلوچ تک رسائی نہ دی جائے۔ چین کو کوہ ہمالیہ کے دامن میں قید کیا جائے اور وہ بیرونی تجارت بھارت کی مرضی سے کرے۔ اس طرح سے گوادر کبھی بھی ترقی نہیں کرسکے گا۔
کیا بھارت ایک اور جنگ لڑے گا؟
وقتِ اشاعت : February 6 – 2015