|

وقتِ اشاعت :   January 12 – 2021

زیتون کا درخت نباتاتی، اقتصادی اور مذہبی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ نباتاتی لحاظ سے اس کی کاشت کوہستانی، بارانی اور آبپاش علاقوں میں بڑی کامیابی سے کی جاسکتی ہے۔ اقتصادی اعتبار سے یہ ایک کثیر زرعی آمدنی کا آسان ذریعہ ہے۔ اس کے پھل سے انتہائی کارآمد تیل حاصل کیا جاتاہے۔ ایک کلو تیل کے لیے 4سے 6کلو زیتون درکار ہوتی ہے جو کہ تجارتی اہمیت کا حامل بھی ہے۔ زیتون کی کامیاب کاشت کے لیے ایسی آب و ہوا کی ضرورت ہے جہاں گرمیوں کا موسم متعدل ، گرم اور خشک ہو اور سردی کے موسم میں بارشیں ہوں۔

زیتون کے پودے کو پھول بننے کے لیے سردی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ زیتون کے پھول سے پھل بن جاتاہے۔ زیادہ اور بہتر پیداوار کے لیے زیتون کے باغ میں بیک وقت تین چار اقسام کاشت کرنی چاہیے۔ زیتون کا پودا ہر قسم کی زمین میں کاشت کیاجاسکتاہے جہاں اس کے لیے پانی وافر مقدار میں دستیاب ہو۔ ریتلی میرا زمین اس کی کاشت کے لیے بہترین تصور کی جاتی ہے۔ زیتون کے پودے موسم بہار اور موسم خزاں میں لگائے جاتے ہیں۔ اگر سردیوں کا موسم زیادہ سخت اور کورا پڑنے کا خطرہ نہ ہو تو موسم خزاں کاشت کے لیے بہتر ہے۔

اگر سردیوں میں کورا وغیرہ کا خطرہ ہو تو موسم بہار ہی میں پودے لگانے چاہیے۔ زیتون کے درخت کی اونچائی 8سے 15میٹر تک ہوتی ہے۔ زیتون کے پودے عام طور پر مربع نما طریقہ سے لگائے جاتے ہیں۔ یہاں پودے سے پودے کا فاصلہ اور لائن سے لائن کا فاصلہ برابر ہوتاہے۔ پودے سے پودے کا فاصلہ زمین کی زرخیزی اور پودے کی قسم پر منحصر ہے۔ اگرچہ زیتون ایک سخت جان پودا ہے لیکن پھر بھی زمین میں لگانے کے بعد کم از کم دو سال تک مناسب وقت پر پانی دینا چاہیے تاکہ پودا زمین میں جڑ پکڑ سکے۔ پودوں کے لیے پانی کی ضرورت علاقے کی آب و ہوا اور زمین کی ساخت پر منحصر ہے۔

پودوں کی بڑھوتری اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے لیے مصنوعی کھادوں کی بہت اہمیت ہے۔ مصنوعی کھادوں کا انحصار زمین کی زرخیزی ، پودے کی عمر اور پیداواری صلاحیت پر ہے۔ زیتون کے پودوں کو فاسفورس اور پوٹاش کی نسبت نائڑوجن کھاد کی زیادہ ضرورت ہے۔ جیسے جیسے پودے کی عمر اور پیداوار بڑھتی جائے کھاد بھی اسی تناسب سے بڑھاتے رہنا چاہیے۔ پودے کی وہ شاخیں جو سوکھی ہوئی ہوں یا کسی بیماری کا شکار ہوں یا ایک دوسرے سے الجھی ہوئی ہوں، کاٹ دینی چاہئیں۔ اس کے علاوہ شاخیں جو پھل نہ دے رہی ہوں ان کو بھی نکال دینا چاہیے۔ زیتون میں ایک سال کی شاخ پر پھل لگتاہے اور کانٹ چھانٹ ہر دوسرے سال کرنی چاہیے۔

زیتون کا پھل اگست، ستمبر میں پک جاتاہے۔ جس وقت پھل کا رنگ جامنی ہوجائے، پھل کو پودے سے اتار لیناچاہیے اور پھل اتارنے کے دو طریقے ہیں، ایک پھل زمین پر گرانا،یعنی جس شاخ پر پھل لگاہوتاہے اسے لکڑی کی چھڑی سے پیٹا جاتاہے جس سے پھل زمین پر گر جاتاہے جبکہ دوسرے طریقے میں زیتون کے پھل کو کسی مشین کے ذریعے اتارا جاتاہے۔ بہت سارے ایسے کھیڑے یا حشرات زمین پر موجود ہیں جو زیتون کے درخت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان کو مارنے یا ان کھیڑوں کے نقصان کو کم کرنے کے لیے ہم مختلف اسپرے اور پسٹی سائیٹس استعمال کرکے زیتون کے درخت اور پھل کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

اگر ہم پاکستان میں زیتون کی کاشت اور سرمایہ کاری کی بات کریں تو زیتون کی جنگلی قسم ملک کے مختلف حصوں میں بکثرت پائی جاتی ہے جوکہ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہاں ترقی دادہ اقسام بھی کامیابی سے کاشت کی جاسکتی ہیں۔ اس خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے مختلف حصوں کا سروے کیا گیا جن کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتاہے کہ زیتون صوبہ خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں سوات، دیر، مالاکنڈ ڈویژن، پنجاب کے مختلف علاقوں اور صوبہ بلوچستان میں لورالائی ، موسیٰ خیل ،مستونگ اور خضدار کے علاقے اس کی کاشت کے لیے موزوں ہیں۔ پاکستان میں زیتون کو کسان سبز انقلاب کا نام دے رہے ہیں۔

ملک میں تجارتی پیمانے پر کاشت سال 2000ء ہوئی۔ 2012سے 2015کے دوران ملک میں 28لاکھ پودے لگائے گئے اور گزشتہ سال زیتون کے 6 لاکھ75ہزار پودے درآمد کئے گئے۔ملک میں اس وقت 19مشینیں زیتون کا تیل کشید کررہی ہیں اور پیوند کاری کے لیے ملک میں 15نرسریاں فعال ہیں۔ ملک میں قلم کاری سے زیتون کی پیداوار کی جارہی ہے۔ یہ سب دعویٰ نہیں بلکہ دیر (Dir)، سوات، باجوڑ اور ایبٹ آباد جیسی جگہوں پر لوگوں نے اس کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور آج وہ لاکھوں روپے کا منافع کمارہے ہیں۔

بلوچستان کا ایک ضلع ہے موسیٰ خیل جہاں زیتون کے 2000ہزار درخت لگائے گئے ہیں جس میں سے صرف 1000درختوں کی کمائی لگ بھگ 40لاکھ روپے تک ہے۔ بلوچستان کے 20(بیس) اضلاع میں زیتون کی کاشت کی جاسکتی ہے۔ اب اگر پاکستان میں زرعی ادارے کسانوں کو اچھے معیار کی کرافٹنگ فراہم کرے اور ڈارپ ایریگیشن لگا کر کسانوں کو سبسڈی دی جائے تو اس سے نہ صرف زمیندار اور کسان خوشحال ہوسکتے ہیں بلکہ ملک کی معاشی حالت میں بھی بہتری آسکتی ہے۔