پی ڈی ایم جس مقصد کیلئے بنایا گیا اور جس طرح شروع میں حکومت کے خلاف موثر تحریک کا آغاز ہوا عوام اور سیاسی جماعتیں ملک میں تبدیلی کے آثار دیکھنے لگے تھے جب پی ڈی ایم نے گجرانوالہ کراچی کوئٹہ ملتان لاہور پشاور فیصل آباد و دیگر بڑے شہروں میں بڑے اور تاریخی اجتماعات کئے عوام کو یقین ہوگیا کہ اب کی بار ملک میں سیاسی اور جمہوری تبدیلی کا غالب امکان پیدا ہو جائے گا لیکن جب پی ڈی ایم نے سینٹ سے قبل استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تو اس اعلان سے جہاں حکومت وقت لڑکھڑاتی ہوئی نظر آ رہی تھی وہیں پی ڈی ایم بھی اندورن خانہ ختلافات کا شکار ہونے لگی ۔
پی پی پی نے ضمنی اور سینٹ انتخابات لڑنے کا اعلان کرکے پی ڈی ایم کے اتحادکو کمزور کر دیا ،جہاں پی پی پی کے مجوزہ فیصلے سے پی ڈی ایم میں حیرانی ہوئی وہاں عمران خان کی حکومت کو مزید واک اوور ملنے لگا جبکہ دوسری جانب پی ڈی ایم نے ملک کے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں جلسے اور ریلیوں کا اعلان کیا جن کا تسلسل جاری ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا بلوچستان میں گہرا اثرو رسوخ ہے جمعیت علماء اسلام نیشنل پارٹی پختوان خواہ ملی عوامی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نیشنل پارٹی کا بلوچستان میں سیاسی کرائوڈ زیادہ ہے۔
اسی وجہ سے بلوچستان میں پی ڈی ایم کے تحریک کو تقویت ملتی رہی ہے جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے عوام کی مقبول جماعت ہونے کے باعث عوام کی ان جلسوں میں شرکت ہی پی ڈی ایم کی تحریک کی کامیابی و کامرانی کا موجب بن رہاہے اور بلوچستان کے عوام حکومتی ناقص پالیسوں امن و امان کی بگڑتی ہوتی صورتحال مہنگائی بیروزگاری اور صوبے سے زیادتیوں کے تسلسل کے باعث بلوچستانی عوام حکومت مخالف کیمپ میں زیادہ دلچسپی لیتے رہے ہیں اور بلوچستانی عوام ہی پی ڈی ایم کی تحریک کو نجات دہندہ تحریک سمجھ رہے ہیں۔
بلوچستانی عوام کو جہاں عمران خان کے ریاست مدینہ طرز حکمرانی سے امیدیں وابستہ تھیںوہ اب صرف سراب ثابت ہو چکی ہیں بلوچستانی اب سمجھ چکے ہیں کہ عمران خان کے اعلانات بھی صرف نعرہ بازی ہیں وہ سابق حکمرانوں کی طرح بلوچستان پر بھی خاص توجہ نہیں دے رہے جن کی واضح مثال مچھ واقعہ ہے جہاں گیارہ مزدوروں کو بیدردی سے گلہ کاٹ کر قتل کیا گیا، ورثا نے لاشیں رکھ کر عجیب مطالبہ کیا کہ والی ریاست مدینہ ہماری دلجوئی اور داد رسی کے لئے جب تک تشریف نہیں لاتے تب تک وہ مقتولین کودفن نہیں کرینگے ۔
قربان جائوں عمران خان کی سوچ اور صداقت پر کہ میں وزیر اعظم ہوں اس طرح کی بلیک میلنگ سے میں کبھی نہیں آئونگا ۔جب یہ باتیں ہزارہ برداری نے سنیں تو انہوں نے فوراً مقتولین کو دفن کیا اور انہوں نے بھی محسوس کیا کہ وہ بھی بلوچستانی ہیں شاید ان کا خون بھی سستا ہے وزیراعظم وہ بھی ریاست مدینہ طرز کی جس ریاست مدینہ میں یہ کہا جاتا ہو کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کتا مر جائے تو روز محشر عمر فاروق سے پوچھا جائے گا ۔لیکن عمران کے ریاست میں بیک وقت گیارہ افراد کے گلے کاٹ دینے کے باوجود ان کی داد رسی اوردلجوئی کیلئے تشریف نہ لا کر جہاں ریاست مدینہ اپنی ہی طرز سیاست پر یوٹرین لیکر بڑے لیڈر ہونے کے دعوے کو سچ ثابت کر دیا۔
جہاں تک پی ڈی ایم کے ڈیرہ مراد جمالی اور لورالائی کے کامیاب جلسوں میں عوامی شمولیت اور حمایت کا سوال ہے یقینا وہ عوام کی جوق درجوق شمولیت کی وجہ سے ہی ممکن ہوئے ہیں ڈیرہ مراد جمالی میں پی ڈی ایم کے تاریخی جلسے میں جہاں صرف صوبائی قیادت نے شرکت کی تھی لیکن اس کے باوجود جلسہ حکومتی توقعات سے بڑھ کر ثابت ہوا جہاں جمعیت،نیشنل پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی پی پی پی مسلم لیگ ن پختون خوامیپ جے یو پی نورانی اے این پی و دیگر جماعتوں کی صوبائی قیادت نے شرکت کی ۔
اگر اسی جلسے میں مولانا فضل الرحمن مریم نواز شریف یا بلاول بھٹو شرکت کرتے تو ڈیرہ مراد جمالی کا جلسہ بھی تاریخی جلسہ ہوتا لیکن اس کے باوجود ڈیرہ مراد جمالی میں پی ڈی ایم کا کامیاب جلسہ حکومت اور مخالف سیاسی جماعتوں کی توقعات سے بڑھ کر تھا یقینا جلسہ کا کریڈٹ جمعیت سمیت تمام جماعتوں کو جاتا ہے پی ڈی ایم کی موجودہ تحریک سے لگتا نہیں کہ عمران خان گھر سدھار جائیں گے، میری ناقص رائے میں عمران خان اس سال بھی حکومتی فرائض سرانجام دیں گے تاہم ان حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں سے جہاں ملکی معیشت تباہی کی جانب گامزن ہے۔
وہاں مہنگائی نے عوام کو نان شبینہ کا محتاج بنا دیا ہے جو وزیر اعظم تین سال تک کوئی انقلاب یا معمولی تبدیلی نہ لا سکی ہو اس سے پانچ سالوں میں ترقی اور تبدیلی کی امیدیں رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ سینٹ انتخابات ہی اس حکومت کی تبدیلی اور برقراری کی نوید ہو سکتے ہیں مسلم لیگ ن کے دور میں جس طرح سینٹ میں اس کے ساتھ دو دو ہاتھ کیا گیا اگر یہی روایت عمران خان کے ساتھ سینٹ انتخابات میں ہوا تو یقینا حکومت پھر جلد ہی فارغ ہو جائے گی اور اگر عمران خان نے سینٹ میں اکثریت حاصل کی تو پھر دور تک تبدیلی کا امکان نہیں تاہم یہ پاکستان ہے۔
یہاں ناممکن بھی ممکنات میں جلد تبدیل ہو جاتے ہیں اور اگر سلیکٹرز چاہیں تو پھر ہر چیز ممکن ہے۔ تاہم اصل امتحان پی ڈی ایم کا اب شروع ہو چکا ہے اب پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں سکیٹرز کو کندھا دینے کیلئے ریس لگا چکی ہیں دیکھتے ہیں کہ کون منظور نظر ہوتا ہے اور کون جمہوریت کا حقیقی علمبردار بن جاتا ہے یہ فیصلہ وقت وحالات پر چھوڑ دیتے ہیں۔