انسان کا دوسرے انسان تک اپنی آواز پہنچانے کا ذریعہ زبان ہے اور زبان کے ذریعے خیالات اور حالات پہنچانے کی ضرورت پیش آئی،جو آج کے دور میں صحافت کہلاتی ہے۔ صحافت ہر سماج ملک خطہ اور دیہات کی ضرورت تھی چنانچہ اسے ایک شعبہ قراردیدیا گیا ہے،دنیا نے آج اس میں نت نئے طریقے ایجاد کئے ہیں،جہاں تک ہمارے خطے کی بات ہے تو یہاں ریاست قلات کے دور میں حکومتی احکامات سمیت دیگر ضروری اعلانات شہر کے چوراہے پر ریاست کے طابع ایک مخصوص طبقے کے افراد ڈھول بجا کر سب کو جمع کرتے اور پھر حکومتی احکامات کا اعلان کرتے جس سے لوگوں میں حکومتی احکامات اور اعلانات سامنے آتے۔
تب ہی کہتے ہیں کہ انگریز کے دور میں جب خان آف قلات ہندوستان گئے تو انہیں بتایاگیا کہ صحافی آپ سے ملنے آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ صحافی کون ہیں تو انہیں بتایاگیا کہ یہ آپ سے آپ کی رائے جاننے آئے ہیں پھر یہ جا کر لوگوں میں آپ کی رائے اور پیغام کی تشہیر کریں گے تو انہوں نے برجستہ کہا اچھا اچھا میراثی آئے ہیں۔ چنانچہ خان آف قلات صحافیوں سے آگاہ تو تھے لیکن انہوں نے ازرا تفنن کہا تھا۔ جہاں تک ہمارے وطن میں باقاعدہ طورپر صحافتی کوششوں کی بات ہے تو ہمیں یہ شواہد ملتے ہیں کہ میر عبدالعزیز کرد یوسف عزیز مگسی اور خان عبدالصمد خان اچکزئی نے ہندوستانی اخبارات میں مضمون لکھنا شروع کردیا تھا۔
اور ان مضامین کو جواہر لعل نہرو باقاعدگی سے پڑھتے تھے اور انہوں نے ان مضامین کی تعریف کی تھی،خان عبدالصمد اچکزئی نے بعد میں اس ضرورت کو محسوس کیا کہ بلوچستان سے اپنا اخبار بھی ہونا چاہئے چنانچہ انہوں نے 1938 میں اپنا پہلا اخبار جاری کیا، اس کے لئے پریس کی ضرورت پڑی تو انہوں نے چندہ کرکے اپنا پریس کوئٹہ میں لگایا جس کے لئے آدھے پیسے خان آف قلات میر احمد یار خان نے دیئے، پریس کو یوسف عزیز مگسی اور دیگر شہداء کے نام کیاگیا جو 1935 کے زلزلے میں شہیدہو گئے تھے۔
اس کے بعد بلوچستان میں باقاعدہ طورپر صحافتی سرگرمیاں شروع ہوئیں اور کئی ایک اخبارات رسائل اور جرائد کا آغاز ہوا جنہوں نے ہندوستان کے حالات سمیت بلوچستان کے حالات کو سامنے لانے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ بات اہم ہے کہ سیاست اور صحافت ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں کیونکہ سیاست کی آواز صحافت ہی ہوتی ہے، یہ ایک دوسرے کے بغیر وجود ہی نہیں رکھتے چنانچہ بلوچستان سیاسی حوالے سے ہمیشہ سے زرخیز رہا ہے تو صحافت کا بھی یہاں بول بالا رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ صحافت پر عمومی پابندیاں بھی جاری رہیں لیکن یہ کوششیں مختلف شخصیات مختلف اخبارات رسائل اور جرائدکی صورت میں جاری رہیں۔
بلوچستان میں گزشتہ سات دہائیوں سے جاری سیاسی تحریک نے جہاں لوگوں میں شعور بخشا وہی صحافت کا بھی اس سیاسی تحریک سے چھولی دامن کا ساتھ رہا، لیکن جس طرح سے استعمار مخالف سیاست رہی یوں صحافت بھی استعمار کے زیر عتاب رہا، بلوچستان میں متعدد اخبارات پابندی کے زد میں آئے اور ان کے سرپرستوں ایڈیٹروں اور معاونین کو پابند سلاسل کیا گیا۔ حالیہ دور میں بھی بلوچستان میں صحافت کی حالت دگر گوں ہیں گوکہ سیاست اپنے لئے مختلف راہ نکالتی ہے اور اپنا عمل جاری رکھتی ہے جس میں روپوشی جلاوطنی اور مختلف انداز اختیار کئے جاسکتے ہیں لیکن صحافت کیلئے تا دیر ایسا ممکن نہیں ہوتا لہذا صحافت کیلئے لوگوں سے روابط۔
حالات کے بیچ رہ کر آگاہی ضروری ہوتی ہے جبکہ بلوچستان میں اب صحافت کی یہ شکل باقی نہیں رہی ہے جس سے اب سوشل میڈیا ہی واحد ذریعہ رہ گئی ہے جس سے پروفیشنلی صحافت اور لوگوں میں جاکر ان سے ان کی رائے طلبی اور ان کی اشاعت تشہیر اور رسائی مشکل ہوچکی ہے جس سے ایک طرح سے خبریں تو سامنے آرہی ہیں کہنے کو اخبارات موجود ہیں، علاقے میں صحافتی انجمنیں موجود ہیں لیکن اس خبر کے پس پردہ حقائق اس صورتحال کو بنانے کے جو عوامل ہیں وہ سامنے نہیں آرہے جبکہ محض خبرکی اشاعت اور اس کو سامنے لانے سے صحافت کی تشفی نہیں ہوتی۔
چنانچہ اصل حقائق اور صورتحال کی پوری آگاہی عوام الناس کا بنیادی حق ہے جو یہاں سلب کیا گیا ہے اور بوجوہ صحافت کی حقیقی روح یہاں موجود نہیں۔ کنٹرولڈ صحافت آج بھی موجود ہے لیکن کسی علاقے میں جاکر حقیقی تحقیقی اور مشاہداتی صحافت کا عنصر ناپید ہوچکا ہے، سوشل میڈیا پر حقیقی خبر کے ساتھ ساتھ جعلی خبروں کی بھی بھر مار ہے جس سے لوگوں میں کنفیوژن کی ایک کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔