میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا (راحت اندوری)
گزشتہ سے پیوستہ برس ایک مختصر وڈیو سے متعلق کام کرنے کا موقع ملا جو کوئٹہ میں مقیم ایک کراٹے چیمپئن نرگس کے بارے میں تھی۔ کئی ملکی اور غیر ملکی مقابلوں کی فاتح یہ بچی میرے اور مجھ جیسے بہت سے اور لوگوں کے لئے سوچ کے کئی در وا کر گئی۔ چند منٹوں کی ایسی وڈیو کسی بھی کھلاڑی کا تعارف ، اسکا ارتقا اور کامیابی کے متعلق ہونی چاہیے تھی، لیکن اس وقت میں اور میرے کئی ساتھی دل تھام کر رہ گئے جب اس وڈیو کا آغاز دور تک پھیلے ہوئے ایک شہرخموشاں سے ہوا جہاں تاحد نگاہ قبریں ہی قبریں تھیں۔اور ان کے قریب کراٹے کی مشقوں میں مصروف بچیاں اور بچے جن کے لئے موت گویا زندگی کی سب سے اہم رفیق بن چکی ہے۔
نرگس نے اپنی کامیابی کی داستان میں یہ بھی بتایا کہ جب بھی کسی مقابلے میں شرکت کے لئے اپنے علاقے سے نکلنا ہوتا تھا تو اسکی ماں اسے گھڑی گھڑی فون کرکے اسکی خیریت معلوم کرتی رہتی تھیں۔ کیا عالم ہوتا ہوگا اس وحشت کا جہاں ماں کا دل بیٹی کی زندگی مانگتے مانگتے نہ تھکتا ہوگا اور اسکے خیریت سے لوٹ آنے تک کیا وہ ایک پل بھی چین سے بیٹھ پاتی ہوں گی؟لمحہ بھر کودل پر ہاتھ رکھیے اور بتائیے کہ خدانخواستہ اگر ہمیں ایسے عالم میں زندگی بسر کرنی پڑے جہاں ہر لحظہ یہ اندیشہ رہے کہ کسی بھی سمت سے انسان صورت اجل کے ہرکارے آن دبوچیں گے تو کیا ہم میں سے کوئی ہے۔
جو اپنے پیاروں کو گھر سے نکلنے دے؟ ہماری ہزارہ مائیں کئی عشروں سے اسی خوف اور دہشت کے مہیب سایوں تلے زندگی گزار رہی ہیں۔انکے فگار دل ، بریدہ دامن اور خشک آنکھیں شاید اب آنسو بہانے کے قابل بھی نہیں رہیں کہ اپنے پیاروں کے لاشے اٹھانا اب ایک معمول ہے اور انکی زندگیوں کا ایک بھیانک جز بھی۔جرم پوچھیے تو انسانیت بلکہ مسلمانیت بھی منہ چھپائے کہ اب شاید یہی چلن چل نکلا ہے کہ جس سے بھی اختلاف ہو اسکی جان لے لی جائے۔ جو ہماری مرضی سے سانس نہ لے اسکی سانسیں چھین لی جائیں۔
جو ہمارے طریقے سے اتفاق نہ کرے اسے ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا جائے۔ میرا دین تو سلامتی اور امن کا علمبردار تھا میرے ہم مذہب تو محبت اور ایثار سے گندھے تھے، پھر یہ کون لوگ ہیں جو انسانی بہروپ بھرے آتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دلوں کی بستیاں مسمار کردیتے ہیں۔حالیہ دنوں میں مچھ میں پیش آنے والا دلخراش واقعہ انسانیت سوزی کی ایسی بھیانک مثال ہے جس کے متعلق کچھ بھی کہنے کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔ ایک بار پھر سے کوئٹہ کی منجمد فضاؤں میں اپنے پیاروں کے تابوت ،اور زخمی دلوں کی آخری متاع سنبھالے بیٹھے یہ بزرگ، یہ مائیں، یہ بہنیں، یہ بھائی، یہ بچے۔
سب کی نظروں اور زبانوں پر موجود سوال۔ وہ کون سے الفاظ ہیں جن سے انکی دلجوئی اور اشک شوئی ممکن ہے؟ وہ کون سے اقدامات ہیں جن سے انکے زخموں پر مرہم رکھا جاسکتا ہے؟ وہ کون سی دوا ہے جس سے یہ اس ذہنی انتشار اور ان خونچکاں مناظرکو بھول پائیں گے؟ اور وہ کون سی درسگا ہ ہے جو ان بچوں کو اس تمام جذباتی کیفیات سے نکال کر انہیں زندگی کی ضمانت دیتے ہوئے اس معاشرے کا فعال رکن بنا سکتی ہے؟ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس، پاکستان نے ہزارہ برادری کے مصائب اور آلام سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی، جس کے مطابق 1999 سے 2018تک ہزارہ برادری دہشت گردوں اور مذہبی انتہاپسندوں کا مستقل نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
یہ جفاکش اور با صلاحیت لوگ ان تمام آفات اور دکھوں کے باوجود تعلیم اور کھیلوں میں نام پیدا کرتے آرہے ہیں اور ان میں سے کئی تابناک ہیرے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ ہماری قوم کا یہ قابل رشک سرمایہ نفرت، اور شدت پسندی کی نذر ہورہا ہے۔جان کا خوف انہیں اپنے ہی ملک میں قیدیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کئے ہوئے ہے اور بنیادی سہولیات سے دوری ان میں محرومی کے احساس کو پروان چڑھا رہی ہے۔ مچھ واقعے کے شہداء کی تدفین تو بالآخر ہو گئی لیکن کیا یہ اس سلسلے کا آخری سانحہ ہوگا یہ ممکن بنانا اداروں کے ساتھ ساتھ افراد کی بھی ذمہ داری ہے۔
شیعہ سنی اختلافات اور علاقائی مفادات کی بھینٹ چڑھنے والے یہ سب لوگ من حیثیت قوم ہمارے احساس، اقدار، اخلاقیات انسانیت اور سب سے بڑھ کرمسلمانیت کے لئے ایک سوالیہ نشان ہیں۔ کئی دہائیوں سے نفرت، فرقہ پرستی، انتہا پسندی اور خودپرستی کا پرچار آج وطن عزیز کو جس موڑ پر لے آیا ہے، اسکا تدارک میں اور آپ اپنی اپنی حیثیت میں کم از کم اتنا حصہ ڈال سکتے ہیں کہ اپنے دلوں میں وسعت پیدا کریں اور ایک دوسرے کو قبول کرنا سیکھیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دین کی اصل روح کو پہچانیں اور شرپسند افراد اور مواد سے دور رہیں۔
نسلی منافرت سے عمر بھر نبردآزما رہنے والے نیلسن منڈیلا نے کیا خوب کہا ہے:کوئی بھی انسا ن پیدائشی طور پر کسی دوسرے کی رنگت، اسکے ماضی یا مذہب سے نفرت نہیں کرتا۔ لوگ نفرت کرنا سیکھتے ہیں اور اگر وہ نفرت کرنا سیکھ سکتے ہیں تو پھر انہیں محبت کرنا بھی سکھایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ انکے دلوں میں قدرتی طور پر پہلے سے ہی موجود ہوتی ہے۔