|

وقتِ اشاعت :   January 26 – 2021

انسانی حقوق کی کارکن اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کو سینکڑوں افراد کی موجودگی میں ان کے آبائی گاؤں تمپ میں سپرد خاک کردیاگیا۔ یہ تدفین ان کی وصیت کے مطابق کی گئی۔ ان کے وصیت کے مطابق وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تمپ میں گزارنا چاہتی تھیں۔جہاں ان کی روح موجود ہے۔ ان کی وصیت ’وائے وطن ہشکیں دار‘ کے فلسفے کے عین مطابق تھی۔’وائے وطن ہشکیں دار‘ کے معنی ہیں کہ ’ہمارے وطن میں اگر خشک لکڑی بھی ہو تو ہمارے لیے وہ بھی بہت بڑی چیز ہے۔

کریمہ بلوچ کوکینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں رہنے کے باوجود انہیں بلوچستان جیسا پسماندہ خطہ دل و جان سے عزیز تھا۔ وہ نہ صرف اپنی سرزمین کی مٹی سے پیار کرتی تھیں بلکہ وہاں جاری ناانصافی و جبر کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں۔ وہ مٹی کا قرض اورہمارا فرض کے نظریات پر عمل پیرا تھیں۔بانک کریمہ بلوچ نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز بی ایس او کے پلیٹ فارم سے کیا وہ تاریخ میں پہلی بلوچ لڑکی ہے جو بی ایس او کی چیئرپرسن منتخب ہوگئی تھیں۔ سیاسی عدم استحکام اور عدم تحفظ کی وجہ سے انہیں اپنی سرزمین کو چھوڑنا پڑا اور کینیڈا میں جا کرانھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا دوبارہ آغاز کیا۔

وہ ایک مضبوط، دلیر، بہادر، نڈر اور با ہمت خاتون تھیں۔ انھوں نے ہر وقت ہر جگہ ہر پلیٹ فارم پر بلوچ قوم اور اس کی بقا کی جنگ لڑی اور بلوچ خواتین میں سیاسی شعور کو بیدار کیا۔ کریمہ بلوچ بے شمار بلوچ خواتین اور بچیوں کا رول ماڈل بن چکی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بانک کریمہ صرف ایک لڑکی ہی نہیں تھی بلکہ وہ ایک سوچ ہے، وہ ایک نظریہ ہے، وہ ایک منزل کا راستہ ہے، وہ جہد کی علامت ہے اور مزاحمتی جدوجہد کی علم بردار ہے۔بانک کریمہ بلوچ سے قبل بلوچ سیاست میں بلوچ لڑکیوں یا خواتین کا کوئی اہم رول نہیں ہوتا تھا۔

بلکہ سیاست میں مرد اور نوجوان ہوتے تھے۔ تاہم کریمہ بلوچ کی سیاست ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ انہوں نے بلوچ سیاست کی بنیاد گھر کی دہلیز سے ڈال دی۔ انہوں نے پچاس فیصد خواتین آبادی کوگھر کی چاردیواری سے نکال کر سیاسی میدان میںلے کر آگئی۔ اس پچاس فیصد آبادی کو باقاعدہ متحرک اور سرگرم کیا۔ پہلی دفعہ بلوچ سیاست ایک نئے دور سے گزری جس کی قیادت لڑکوں کی جگہ لڑکیوں نے لے لی۔ اس عمل سے تحریک میں ایک نئی روح اور جان آگئی۔ کریمہ نے بلوچ مزاحمتی سیاست میں ایک سرخیل رہنما ء کی حیثیت سے نا قابل فراموش کردار ادا کیا۔

کریمہ بلوچ کی شہادت کے بعد بلوچ معاشرے میں جتنی بھی بچیوں کی پیدائش ہورہی ہے ان کے نام صرف کریمہ رکھے جار ہے ہیں۔ اور ان بچیوں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی جارہی ہیں۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کریمہ نے بلوچ معاشرے میں بیٹی کو ایک مزاحمت کا سمبل بنادیا۔ ہر فرد اپنی بیٹی کو بیٹے سے زیادہ فوقیت دینے لگا ہے اور اس کی پیدائش کو دھوم دھام سے منا رہا ہے۔جب کریمہ بلوچ کی جسد خاکی کو کینیڈا سے کراچی ایئرپورٹ منتقل کیا گیا تو ایک نہ بیان کرنے والی کہانی کا آغاز ہوا۔

ان کے جسد خاکی کو لیاری لے جانا تھا جہاں لیاری کے عوام کو ان کا دیدار کرنا تھا،اور ساتھ ساتھ وہ قومی اعزاز کی رسومات سمیت نماز جنازہ ادا کرنی تھی۔ تاہم ان کے جسد خاکی کو ان کی فیملی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے حوالے نہیں کیا گیا جس پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ میرے وطن پہ پہرے ، میری سوچ پہ پہرے ، میری زبان پہ پہرے ، میرے کفن پہ پہرے ، میری قبر پہ بھی پہرے ،یہی تو ہے بلوچستان۔ بانک کی لاش کو کراچی ایئر پورٹ سے ان کے آبائی علاقے تمپ سخت سیکیورٹی کے ساتھ روانہ کردیا گیا۔

تاہم کراچی سے تمپ تک راستے میں لوگوں نے بانک کریمہ کے جسد خاکی کا استقبال کیا اور خواتین اور بچیاں ان کے جسد خاکی کو جذباتی انداز میں سلامی دیتے رہے۔جب کراچی سے بانک کی جسدخاکی کو تربت روانہ کردیا گیا تو بلوچ یکجہتی کمیٹی نے احتجاج کا عمل جاری رکھا اور لیاری کے علاقے چاکیواڑہ بلوچ چوک پر دھرنا دیا اور غائبانہ نماز جنازہ ادا کردی گئی۔کراچی کے بلوچوں نے ہمیشہ بلوچستان کی سیاست میں ہراول دستہ کا کردار ادا کیا۔کراچی کی بلوچ آبادیوں نے بلوچستان میں جاری ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

اور آج بھی اٹھارہے ہیں۔بلوچستان اور لیاری کا قومی سیاسی رشتہ آج بھی اسی طرح ہے جس طرح ماضی میں رہا ہے جس کی وجہ سے حکومت نے لیاری میں جرائم پیشہ افراد کو متحرک کیا۔ لیاری کو جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا گیا۔ اور لیاری کے سماجی ڈھانچے کو مکمل تباہ کردیاگیابانک کریمہ نے روپوشی کی زندگی لیاری کی تنگ گلیوں میں گزاری۔ آج بھی بانک کریمہ ہمیشہ کراچی کے عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ انکا مضبوط نظریہ و فکر ہمیشہ ان کی رہنمائی کرتی رہے گی۔بلوچستان بار کونسل اور نیشنل پارٹی نے کریمہ بلوچ کے آخری رسومات میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ کے خاندان کو یہ حق پہنچتا ہے۔

کہ وہ ان کی رسومات اپنی مرضی کے ساتھ ادا کریں لیکن لاش کو تحویل میں لیکر علاقے کو سیل کرنا بوکھلاہٹ کی نشاندہی ہے۔جاری الگ الگ بیانات میں کہا گیا کہ اس سے قبل نواب اکبر خان بگٹی اور نواب خیر بخش مری کی لاش کو سرکاری تحویل میں لیا گیا جس کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوئے اور اس عمل سے ملک کی بدنامی ہوئی۔سیاسی حلقوں کے مطابق گیارہ جون 1981 کو بی ایس او کے رہنما حمید بلوچ کو جب مچھ جیل میں پھانسی دی گئی تو حمید بلوچ کی میت کوان کے خاندان کے حوالے نہیں کیا گیا تھا بلکہ ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے دشت کنچتی میں ایک پہاڑی چوٹی پر رکھ کر چلے گئے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بانک کریمہ بلوچ کے حوالے سے اپنائے گئے حکومتی رویے کے خلاف بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی۔ سیاسی و سماجی حلقوں نے بانک کریمہ بلوچ کی جدوجہد کو نوجوانوں اور خواتین کے لیے مشعل راہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ جیسی ہستیاں روز پیدا نہیں ہوتیں۔ جن کا خلاء پرْ کرنا صدیوں کی جدوجہد پر محیط ہوگا۔اور ان کے مزاحمتی کردار نے بلوچ خواتین اور نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔