دنیا کے ہر کھیل میں ایک ہتھیار (ٹول) ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ کھیل کھیلا جاتا ہے اور سیاست وہ کھیل ہے جہاں وہ ہتھیار دوسرا انسان ہے جس کے ذریعے سارا کھیل کھیلا جاتا ہے اور جیتا جاتا ہے کوئی بھی سیاست دان اس انسانی ہتھیار کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ عام الفاظ میں اس ہتھیار کو عوام کہتے ہیں جو ان سیاست دانوں کی تقدیر پلٹ سکتی ہے۔ اس لیے پوری کوشش کی جاتی ہے کہ یہ عوام دماغ سے پیدل ہی رہے اور دماغ کو استعمال نہ کر پائے اس مقصد کے لیے ایسے حربے استعمال کیے جاتے ہیںجس سے عوام کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے۔
اور انہیں اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔جو جتنا اس کام میں ماہر ہوتا ہے وہ اتنا کامیاب۔ہمارے ہاں تو اس کی مثالیں آئے دن ملتی رہتی ہیں کہ کیسے ایک شخص اوپر بیٹھ کر ڈبی ہلاتا ہے اور عوام کی بڑی تعداد صم بکم کی تصویر بنے اس پر کرتب دکھاتی رہتی ہے۔ سیاست کا یہ کھیل بندر کے کھیل سے زیادہ دلچسپ ہوتا ہے عوام کا بندر سیاست کے مداری کے کنڑول میں ہوتا ہے وہ اس سے اپنے من پسند کرتب دکھاتا ہے. پچھلے دنوں سیاست اور فوج پر بڑی بحث چل رہی تھی اور ہماری قوم تو ہے ہی عقیدت مند۔۔ جس سے عقیدت رکھتی ہے۔
پھر جان کی پروا بھی بھول جاتی ہے مگر آج کے دور میں اتنی عقیدت بھی اچھی نہیں ہوتی۔ سب بحث و مباحثے کو چھوڑ کر اگر دیکھا جائے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ ہمارا مسئلہ سیاست یا فوج نہیں سوچ ہے اور یہ سوچ ہمیں آنکھیں کھولنے نہیں دیتی۔اس نے ہمیں تقریباً اندھا کر دیا ہے ہم عجیب پجاری لوگ ہیں جسے مانیں گے پھر اندھا دھند اس کی تقلید کریں گے چاہے وہ ہمیں مار ہی کیوں نہ دے۔ سیاست ہو مذہب ہو یا کوئی اور معاملہ ہو ہم ہر جگہ آنکھیں بند کر کے چلتے ہیں بس جو ہمارے ماننے والے نے کہہ دیا بس کہہ دیا اب ہمارے سوچنے کا کیا کام۔
ہمارے سیاست دان نے یہ کہا ہے اب تو یہ برحق ہو گیا۔ ہماری تو پچھلی سات نسلیں بھی ان کی پجاری تھیں اور آنے والی سات بھی انشاء اللہ رہیں گی۔ہم سمجھتے نہیں ہیں کہ ہر ایک جگہ اچھائی بھی ہوتی ہے اور برائی بھی یہ تو کوئی بات نہیں کہ آپ اچھائی گنواتے رہیں اور برائی پر آنکھیں بند کر لیں۔