|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2021

یہ 1994 کی بات ہے جب میرے والد سہیل سانگی نے سندھی زبان میں ہفت روزہ “آرسی” کا اجراء کیا تھا، یہ سندھی کا پہلا نیوز میگزین تھا۔ ان کے ہمراہ ان کے دیرینہ دوست بشیر ملاح بھی تھے جو میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ سیاسی سفر کرچکے تھے، میں نے ابھی صحافت کا کوئی باضابطہ سفر شروع نہیں کیا تھا لیکن اس میگزین کے کچھ انتظامی امور میں دلچسپی لینا شروع کی تھی۔ جب بات آئی کہ بلوچستان کی صورتحال پر کون لکھے گا، تو والد نے بتایا کہ اپنا کامریڈ صدیق بلوچ ہے نا کوئٹہ میں، وہ لکھیں گے۔

پاکستان کے اردو اور انگریزی میڈیا میں ہاتھوں کی انگلیوں سے کم سندھی اور بلوچ صحافی ہیں، میں نے صدیق بلوچ صاحب کا نام پہلی بار ان دنوں میں ہی سنا تھا۔’’ آرسی‘‘ کی اشاعت ہوئی اور کوئٹہ سے صدیق بلوچ صاحب کی ڈائریوں نے بھی فیکس پر لینڈ کرنا شروع کردیا۔ والد جب بھی انہیں ٹیلیفون کرتے تو سامنے سے جواب آتا ’’ بھوتار حاضر’’۔ ان کے پاس دوستوں کے لیے جیسے نہ ہو ہی نہ۔ایک مرتبہ میں جیسے گھر سے آرسی کے دفتر پہنچا تو وہاں والد صاحب اور بشیر ملاح کے ساتھ ایک اور صاحب بھی بیٹھے تھے۔ یہ صدیق بلوچ تھے۔ ایک صحت مند، سنجیدہ شخص۔

جس کے چہرے سے شفقت ٹپک رہی تھی۔ والد صاحب نے میرا تعارف کرایا۔ وہ بڑی شفقت سے ملے۔ والد صاحب سے میرے لئے کہا کہ اس سے چائے کھانا منگواتے ہویا کچھ لکھنا پڑھنا بھی سکھاتے ہو؟ والد صاحب نے جواب دیا کہ ابھی اس کو یونیورسٹی پڑھنا ہے۔ انہوں نے فٹ سے کہا، وہ ڈگری وغیرہ کا قصہ ہوتا رہے گا، یہ کام بھی سکھائو۔ میں ان لوگوں کی گفتگو بڑی دلچسپی سے سن رہا تھا۔ پھر والد صاحب نے مجھے بتایا کہ “ریاض یہ ہیں صدیق بلوچ صاحب، جو ہمیں کوئٹہ کی ڈائری بھیجتے ہیں۔ انہوں نے مخصوص سندھی اسٹائل سے ہاتھ جوڑ کہا کہ ” بابا ، ہمارے بھوتار ہیں۔

ان کا حکم چلتا ہے۔ ” یہ لوگ صحافت سے زیادہ سیاست کی باتیں کر رہے تھے۔ خیر ہم تو تب بچہ پارٹی تھے، اور صدیق بلوچ صاحب ہمارے چچا تھے۔بعد میں والد صاحب نے ان کا تفصیلی ذکر کیا، کہ وہ ان کے کامریڈ ہی نہیں، صحافت کا بڑا نام ہیں اوروہ بھی انگریزی صحافت کا۔ انہوں نے صحافت کا آغاز’’ڈان‘‘ سے کیا، سالہا سال تک اسی سے وابستہ رہے۔ بعد میں اپنا اخبار نکالا۔ لیاری میں سیاسی بیداری کے لئے کام کیا۔ خود بلوچ سیاست کو آگے بڑھایا۔ میں سوچنے لگا کہ پھر تو یہ واقعی بڑے آدمی ہیں۔ والد صاحب نے بتایا کہ کامریڈ صدیق نے’’ آرسی‘‘ کے اجراء کو سراہا ہے۔ وہ خوش تھے کہ ایک پورا پرچہ اپنے پسند کا دے سکتے ہو۔

1994 کے بعد میں تعلیم کے حوالے سے حیدرآباد منتقل ہوگیا اور صحافت کا بھی رخ کرلیا ۔تقریباً دس سال کے بعد 2004 میں کراچی میں صحافت کی دنیا میں خود کو آزمانے کے لیے قدم رکھا تو کراچی پریس کلب میں سندھی صحافت کے تو کئی ناموں سے جان پہچان تھی لیکن یہاں عارف بلوچ سے ملاقات ہوئی جنہوں نے مجھے ’’آرسی میگزین” کی یاد دلائی اور یوں والدین کے فکر سوچ ، صحافت اور دوستی کا سلسلہ ایک نسل سے دوسری نسل کے پاس چلا آیا۔صدیق بلوچ صاحب میرے کراچی میں آکر صحافت کرنے پر خوش ہوتے تھے۔ مجھ سے جب بھی ملے بڑے پیار سے ملے۔

کہتے تھے” سب ٹھیک ہے نا، لگے ہوئے ہو نا!! کوئی مسئلہ تو نہیں؟ زبردست۔ میدان نہیں چھوڑنا۔ ” اپنائیت اور محبت بھرے ان مختصر جملوں میں ایک بڑا پیغام ہوتا تھا۔ بعد میں فارغ وقت میں بیٹھ کر سوچتا تھا کہ کوئی بڑی بات سیکھ کے آیا ہوں، یہ بڑی بات کیا ہے، اس کا کبھی جواب نہیں مل پایا۔ شاید زندگی گزارنے کا فن؟صدیق بلوچ صاحب جب بھی کراچی آتے تو ان کا ایک دن کراچی پریس کلب کے لیے مختص ہوتا تھا، چاروں اطراف میں کرسیاں لگ جاتیں اور وہ اپنے علم اور معلومات ، تجربات اور مشاہدات سے ہمارے بارانی ریت جیسے ذہنوں کو سیراب کرتے تھے۔

سچی بات تو یہ ہے میرے جیسے کئی صحافی بلوچستان کی سیاست کو تھوڑا بہت سمجھ پائے وہ صدیق بلوچ صاحب کی ان محفلوں کی وجہ سے۔ میرے لئے وہ والد کے دوست اور کامریڈ ہی نہیں ایک باصلاحیت اور اور پیشہ ور صحافی تھے جن کے دل میں اپنے دیس کے عوام کا درد تھا۔سوئی میں جب ڈاکٹر شازیہ کا کیس ہوا اور نواب اکبر بگٹی نے ایک اصولی موقف اختیار کیا تو بلوچستان کی سیاسی، سماجی اورانتظامی صورتحال میں تبدیلی آنے لگی۔ بعد میں نواب اکبر بگٹی کی شہادت سے جو ریت کا طوفان اٹھا تو چند ہی لوگ تھے جو اس کے دور رس نتائج دیکھ اور سمجھ رہے تھے اور اپنے تجزیوں اور تبصروں میں بھی اس کا اظہار کرتے تھے ان میں صدیق بلوچ صاحب سر فہرست تھے۔

کوئٹہ میں رہ کر بلوچستان کو رپورٹ کرنا وہاں کے معروضی حالات میں دشوار ہے، اس لیے ہم کراچی سے بیٹھ کر وہاں کی رپورٹنگ کرتے تھے ۔دوسری بات یہ بھی تھی کہ بلوچ سیاست کے بڑے نام نواب خیربخش مری، سردارعطااللہ مینگل، شیر باز مزاری اور بگٹی خاندان کے لوگ کراچی میں مقیم تھے۔ اس لیے سیاسی تبصرہ اور ردعمل تو یہاں سے مل جاتا تھا لیکن تجزیے کے لیے کوئٹہ رابطہ کرنا پڑتا تھا جہاں صدیق بلوچ صاحب دستیاب ہوتے تھے۔ ریڈیو پرسیربین ہو یا بی بی سی ویب سائیٹ، اولیت صدیق بلوچ ہی ہوتے تھے۔

صدیق بلوچ صاحب کے اخبار کا نام “روزنامہ آزادی” ہے جس کا پس منظر اظہار رائے کی آزادی ہے، لیکن اس نام پر بھی انہیں کئی بار مختلف حلقوں کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس حقیقت سے سب روشناس تھے کہ چند سال پہلے تک بلوچستان میں مقامی میڈیا کو محدود اور بین الاقوامی میڈیا کو صفر رسائی حاصل تھی ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں صوبے میں جبری گمشدگیوں ،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتی رہی ہیں لیکن میڈیا آزادانہ طور پر ان کی تصدیق یا تردید کرنے سے قاصر تھا اور جب صحافیوں کی ہلاکت اور گمشدگیوں کے واقعات میں بھی جو صوبہ آگے ہو ،وہاں صحافت کرنا اور اصولی صحافت کرنا دل گردے کی بات ہے۔

2013 کے انتخابات کے لیے پہلی بار کوئٹہ جانا ہوا، اس وقت اس شہر کی صورتحال بالکل مختصر (مختلف) تھی، جگہ جگہ ناکے، گھورتی نظریں، ایک غیر یقینی کی صورتحال تھی۔ جب سردار اختر مینگل بھی واپس آچکے تھے تاہم انتخابی بائیکاٹ کا چرچا بھی زور وں پر تھا۔مجھے یادہے کہ صدیق بلوچ صاحب نے کہا تھا کہ بلوچستان پر دس سال تک جن قوتوں نے حکومت کی وہ عوام میں مقبول نہ تھیں۔ قوم پرستوں کو عوام میں پذیرائی حاصل ہے۔ اگر حالات سازگار رہے اور بلوچ قوم پرست جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں تو ٹرن آؤٹ میں اضافہ ہوگا ورنہ اس میں انتہائی کمی ہوگی۔

صدیق بلوچ کی سب بلوچ رہنمائوں سے اچھے مراسم تھے۔ یہ اور بات ہے کہ میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ زیادہ قربت تھی۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی ان مراسم کو اپنے اخباری کاروبار کو چمکانے کے لئے غیر ضروری مراعات کا سہارا نہیں لیا۔ بعض مواقع پر صدیق بلوچ نے اپنے یہ مراسم بلوچ رہنمائوں کو قریب لانے کے لئے ضروراستعمال کئے۔
صدیق صاحب کی یہ خصوصیت عجیب بھی لگتی تھی اور بعد میں اچھی بھی لگی۔ وہ عموماً سنتے زیادہ تھے، بولتے کم تھے۔ اور دوسرے کی بات ہی میں نکال کر اپنی بات کہہ دیتے تھے۔ یہ بھی دیکھا کہ جتنی بات پوچھو اتنی ہی بتاتے تھے، یا انہیں جو بات کرنی ہوتی تھی اتنی ہی کرتے تھے۔ کسی لمبی بات میں نہیں پڑتے تھے۔ یہ بات ان کے بیٹے عارف بلوچ نے بھی اپنائی ہوئی ہے۔ بائیں بازو کے جن لوگوں نے پہلے سیاست اور پھر صحافت کی ان کے لیے صحافت ایک دھندہ نہیں تھا بلکہ ایک مشن تھا، جس میں طبقاتی جہدو جہد کی جھلک اور ترقی پسندانہ سوچ وفکر کی روح ،غریب عوام کا ساتھ اور سرداری نظام کی مخالفت بھی نظر آتی ہے۔

اس لیے یہ صحافت گزشتہ ادوار اور خاص طور پر ان اداروں سے بالکل ہی مختلف تھی جن کے پاس کوئٹہ کی حیثیت محکمہ اطلاعات سے اشتہار حاصل کرنا اورحکمران طبقے سے مراسم بنانا تھا، لیکن صدیق بلوچ اور انورساجدی سمیت دیگر کے لیے یہ ایک کمٹمنٹ تھی۔بلوچستان میں ایک طرف تو حکومت کی کارروائی ہے تو دوسری جانب عسکریت پسند۔ یہاں صحافت دو پاٹوں میں پس رہی ہے لیکن اس کا سفر رکا نہیں، ناخوشگوار صورتحال کے باوجود صدیق بلوچ کی آزادی کا سفر جاری ہے، جو اب سائبر ورلڈ میں داخل ہوچکا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ان کے صاحبزادے چچا صدیق بلوچ کے صحافتی مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

نوٹ: یہ کالم صدیق بلوچ کی دوسری برسی کے موقع پر بھی شائع ہوچکی ہے۔