ہمیشہ سے سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں کہ ادب کا صحافت سے گہرا تعلق رہا ہے، مگر پریکٹیکل طور پر کبھی نہیں دیکھا ۔ یہ 2016 کی بات ہے کہ بلوچی زبان کے نامورطنز و مزاح نگار مرحوم محمد بیگ بیگل اور بلوچی زبان کے شہنشاہ غزل مرحوم ظفر علی ظفر کو بلوچی اکیڈمی کوئٹہ نے ایک سیمینار کے سلسلے میں کوئٹہ مدعو کیا تھا۔ سیمینار محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کے نام پر تھا۔ وہ وقت بھی بڑا قیمتی تھا، ایک تو ہم بے روزگار اوپر سے ادب سے لگاؤ۔دن رات بلوچی اکیڈمی کوئٹہ میں اس وقت کے چیئرمین بلوچی اکیڈمی کوئٹہ عبدالواحد بندیگ کے ساتھ گپ شپ کرتے دن گزر جایا کرتے تھے۔ جب محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کا آنا ہوا ،تو زیادہ تر وقت محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کے ساتھ ان کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں بحث و مباحثہ میں گزر جایا کرتا تھا۔
واجہ محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر چونکہ ضعیف العمر تھے ۔زیادہ تر بلوچی اکیڈمی کے مہمان خانہ میں ہی رہتے تھے۔ کوئٹہ کے ادیب شاعر صحافی حضرات سے ان کا ملنا ہوتا رہتا تھا، کبھی ڈاکٹر شاہ محمد مری ،کبھی عابد میر کبھی اے آر داد۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن راقم واجہ محمد بیگل کے ساتھ ان کے کمرے میں بیٹھا ان کا انٹرویو لے رہا تھا کہ اچانک ماما صدیق بلوچ ایک نوجوان لڑکے کے ہمراہ آیا۔ محمد بیگ بیگل چوں کہ معذوری کی وجہ سے بہت جلدی اٹھ نہیں پاتے تھے مگر ماما صدیق بلوچ کو دیکھتے ہی ایسے اپنے بیڈ سے اٹھ کھڑے ہوئے کہ میں خود ہکابکا رہ گیا۔ ہنستے مسکراتے ایک دوسرے کو دعا سلام کے بعد ماما صدیق بلوچ نے تنزاً واجہ محمد بیگل سے کہا “پیر بوتگے بیگل” بوڑھے ہو گئے ہو بیگل۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر بیگل مسکرایا اور کہنے لگا۔ صدیق جان مجھے کسی سندھی پیر نے کہا ہے کہ دوسری شادی کرو۔ واپس جوان ہو جاؤ گے۔۔۔۔۔ یہ سن کر ماما صدیق بلوچ ہنس کے کہنے لگا “مجھے شک ہے کہ’’ جنتی حور‘‘ آپ کو دل سے یاد کر رہے ہیں۔
ایک ادیب اور ایک صحافی، دونوں کے مابین ملاقات کچھ اس انداز سے ہوئی کہ دونوں مجھے جوان ہی لگ رہے تھے۔ فکری حوالے سے جوان، ادبی حوالے سے جوان، صحافت اور ادب کے میدان میں لیجنڈ ہو کر بھی جوان۔ محمد بیگ بیگل طالب علمی کے زمانے میں صحافت سے منسلک ہوئے تھے مگر جس طرح ماما صدیق بلوچ نے اپنی پوری زندگی صحافت کو دے کر بلوچستان میں صحافیوں کو ایک ایسا منظم اور مضبوط پلیٹ فارم دیا کہ بلوچستان کے ادیب و شاعروں نے بھی صحافت کے شعبے کو اپنانا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔ واجہ محمد بیگ بیگل اور ماما صدیق بلوچ کے درمیان کافی گپ شپ ہوئی اور دونوں اس قدر گہرائی میں نکل گئے کہ واجہ محمد بیگ بیگل ماما صدیق بلوچ سے میرا تعارف کرنا ہی بھول گئے۔
ماما صدیق بلوچ نے خود مجھ سے پوچھا کہ بیٹاکہاں سے ہو؟ کیا مصروفیات ہیں اور بیگل سے اس جوانی میں آپ کا کیا کام۔۔۔۔؟ میں نے اپنا تعارف کیا اور کہا واجہ محمد بیگ بیگل کا انٹرویو لینے آیا ہوں۔ میں چونکہ ماما صدیق بلوچ کو جانتا تھا، ایک دو بار ان کو ادبی سیاسی و سماجی پروگرامز میں مضامین پڑھتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔
واجہ محمد بیگ بیگل نے تنزاً کہا کہ خارانی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو سوال صدیق جان سے پوچھو۔۔۔۔۔ تو میں نے صرف ایک سوال ان سے پوچھا جس کے جواب نے مجھے زندگی گزارنے کا کامیاب راستہ دکھا دیا۔۔۔۔ میں نے پوچھا کہ سر…! کیا ادب کا صحافت سے تعلق ہے؟
جواب میں ماما صدیق بلوچ نے محمد بیگ بیگل کی طرف غور سے دیکھ کر کہا۔۔۔۔ بیٹا اگر تعلق نہ ہوتا تو آج میں بیگل کے پاس نہ ہوتا نہ ہی ہم اس طرح مشغول ہوتے۔ ادب سے صحافت اور صحافت سے ادب کو اگر نکال دیا جائے نہ صحافت میں جان باقی رہ جائے گی اور نہ ادب میں۔۔۔ وہ صحافت صحافت ہی نہیں جس میں ادب نہ ہو، وہ صحافی کہنے کے لائق بھی نہیں جو ادیب نہ ہو، ادب سے ان کا لگاؤ نہ ہو۔ ضروری نہیں ہر صحافی شاعر بنے، افسانہ لکھے، ناول نگار ہو مگر معاشرے میں سچائی کو سامنے لانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنے، سچ لکھنے کی مہارت اور دلیری صحافی میں ضرور ہونی چاہیے اور وہ اس وقت ممکن ہے جب صحافی ادب سے نزدیک ہو۔ جس طرح ایک شاعر اپنے اشعار میں اوپر والے سے سوال جواب کرتا ہے، اگر صحافی اتنا نہیں کر سکتا نہ سہی۔ کم از کم اس میں اتنی جرات تو ہو کہ زمین کے خداؤں سے ڈٹ کر مقابلہ کرے۔ بات صرف صحافی اور ادیب تک محدود نہیں۔ سیاست دانوں کی بھی مثال لیں ۔
جس وقت میر غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، عبدالکریم شورش جیسے سیاست دان، ادیب شاعر ، صحافت وسیاست کر رہے تھے اور ہمارے لیڈر تھے تو تاریخ پڑھیں کہ وہ کس طرح ایک منظم پلیٹ فارم پر سنجیدگی سے قوم کو یکجا کئے ہوئے تھے۔ آج بھی ادب اور صحافت سے دور سیاسی لوگ ہمارے راہشون بنے ہوئے ہیں۔ سب کچھ ہمارے سامنے ہے کہ کیا ہورہا ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے۔۔۔۔ آخر میں ماما صدیق بلوچ نے ایک یادگار بات کی کہ “بیٹاایک بات یادرکھو، وہ دن بھی دور نہیں کہ ایسے غیر سیاسی لوگ سیاست اور اسمبلی کا حصہ بنیں گے کہ ہمارے بزرگ اور سینئر سیاست دان اسمبلی میں بیٹھنا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھیں گے۔