بلوچستان ملک کے تینتالیس فیصد رقبے پر مشتمل بڑا صوبہ ہے لیکن صوبے کی آبادی زرعی اور مردم شماری کے حوالے سے ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ پورے صوبے میں لاکھوں ایکڑ بنجر اور غیر آباد زمینیں پڑی ہوئی ہیں ۔پانی کی عدم دستیابی اور برساتی پانی کو قابل استعمال یااسٹور کرنے کیلئے ڈیمز کے فقدان کے باعث صوبے میں صرف چار اضلاع دریائی پانی سے سیراب ہو رہے ہیں ۔بلوچستان میں سوائے میرانی ڈیم کے کوئی بڑا ڈیم نہیں۔ صوبے میں برساتی پانی ذخیرہ کرنے پر حکمرانوں نے کوئی خاطر خواہ توجہ ہی نہیں دی ہے۔
اسی وجہ سے بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نصیرآباد ہی بلوچستان کا زرعی اعتبار سے زرخیز علاقہ ہے تو اس بے جا نہیں ہوگا۔ نصیرآباد ڈویژن کے اضلاع سرسبز و شاداب اور زرعی حوالے سے خود کفیل اضلاع ہیں جہاں پٹ فیڈر کینال کھیر تھر کینال اور کچھی کینال جو(تا حال) مکمل نہیں ہوئی ہے۔ یہ تمام کینال دریائے سندھ سے نکلتے ہیں اور لاکھوں ایکڑ زمین کوسیراب کرتے ہیں ان کینالوں کی بدولت ہی صوبے بالخصوص نصیرآباد میں زراعت کی ترقی و ترویج کے ساتھ ساتھ زراعت کو اہمیت حاصل ہو رہا ہے۔
وفاق اور صوبے کی عدم توجہی کے باعث جہاں لاکھوں ایکڑ بنجر زمین غیر آباد ہیں وہاں آزادی سے لیکر اب تک (سوائے جنرل ایوب کے انقلابی دور) کے بلوچستان میں کوئی زرعی یا آبپاشی کا میگا منصوبہ نہیں بنایا جا سکا ہے بالکل اسی طرح صوبے میں زراعت جیسا اہم شعبہ محکمہ زراعت کے افیسران اور اعلیٰ حکام کی عدم توجہی کے باعث زراعت تباہی اور پستی کی جانب گامزن ہے اور فی ایکڑ زرعی پیدوار میں کمی کے بھی تباہ کن اثرات و نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے زرعی پیداوار کی نسبت بلوچستان میں زرعی پیدوار بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔
بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں محکمہ زراعت کی زرعی پیداوار کی بہتری کیلئے کوئی خاص کردار اب تک نہیں رہا ہے۔ محکمہ زراعت کی بدحالی عدم توجہی کرپشن کمیشن اور نااہلی کے باعث روز بروز زوال کی جانب گامزن ہے۔ محکمہ زراعت کے آفیسران، فیلڈ اسٹاف اور زرعی ماہرین صرف تنخواہ بٹورنے اور زمینداروں کو ملنے والے بیج کھاد و دیکر مراعات کھانے اور ہضم کرنے میں مصروف ہیں۔ آج تک زرعی پیداوار کم ہونے کی وجوہات اور اسباب کے تدارک کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔ اربوں روپے زرعی بجٹ کے باوجود بلوچستان میں زراعت ترقی کی بجائے زوال پذیری کا شکار ہے۔
زمیندار اور کسان معاشی کفالت حاصل کرنے کے بجائے مقروض ہوتے جا رہے ہیں بلوچستان ملک کا شاید واحد صوبہ ہے جہاں دونمبر زرعی ادویات ،بیج ،کھاد تواتر سے اور محکمہ زراعت کے آفیسران کی جیب گرم کرنے کے باعث زمیندار استعمال کرکے زرعی پیداوار کو تباہ کرنے کے ساتھ زرعی زمین کی پیداواری صلاحیت کو بھی شدید متاثر کر رہے ہیں۔ جس کے باعث فی ایکڑ پیداوار میں بہتری یا اضافہ کے بجائے پیداواری صلاحیت سکڑتی جا رہی ہے ۔ نصیرآباد میں ناقص ، غیر معیاری اور دو نمبر برانڈ کے زرعی بیجوں کو سفارش ،رشوت ،کمیشن اور جیب گرم کرنے کے عیوض لائسنس یا این او سی دیکر زمینداروں اور کسانوں کا معاشی قتل کیا جا رہے۔
زمیندار اور کسان کسمپرسی کی زندگی گزارنے اور معاشی قرضوں کی دلدل میں سال بہ سال جکڑتے جا رہے ہیں۔ چند دنوں قبل نصیرآباد میں انوکھی بیج جو ٹماٹر کی مشہور بیج تھی کے خلاف جعلی اور کم پیداوار دینے کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔ زمینداروں نے کروڑوں روپے کے عیوض خریدنے والے بیج کی بدولت اپنے کروڑوں روپے نقصان ہونے کا دعوے کیا تھا اور اسی نقصان کے باعث ڈیلرز کو مطلوبہ رقم نہ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ زمینداروں اور کسانوں نے اس حوالے سے احتجاج اور مظاہرے تک کئے۔
جبکہ بیج ڈیلر ایسوسی ایشن نے بھی بیج معیاری ہونے اور تواتر سے پیداوار حاصل کرنے کے بعد زمینداروں کی جانب سے بلیک میلنگ اور رقم ہتھیانے کا حربہ قرار دیکر اپنے بقایا جات وصول کرنے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ نصیرآباد کے ضلعی انتظامیہ نے جعلی اور نقلی بیج کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی ہے جس کی تاحال کوئی سفارشارت پبلک نہیں کی گئی ہیں۔ زمینداروں اور ڈیلرز کو طاقتور حلقوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے اور اب تک دونوں گروپ اپنے موقف پر قائم و دائم ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر احتساب اور جزا وسزا کا فیصلہ کرنا ہے۔
تو ان ناقص بیج ڈیلروں کو لائسنس دینے یا جاری کرنے والوں کا ہی کرنا ہوگا کیونکہ محکمہ زراعت کے آفیسروں کی ملی بھگت اور گٹھ جوڑ کے بدولت ہی بیج ڈیلر شپ کی لائسنسز حاصل کرکے زمینداروں کے ساتھ فراڈ کرتے ہیں جہاں تمام بیج غیر معیاری اور دونمبر و ناقص ہوں وہاں محکمہ زراعت کے آفیسران کی اس کروڑوں روپے کے مالی سکینڈلز کے نقصانات پر خاموشی دال کے مکمل کالا ہونے کے ثبوت ہیں۔ زمینداروں اور کسانوں کے معاشی قاتل محکمہ زراعت کے نااہل اور کرپٹ آفیسر شاہی ہیں۔ بلوچستان کی تاریخ میں آج تک آپ کو ایسی کوئی مثال نہیں ملے گی۔
کہ کسی زرعی ماہر یا محکمہ زراعت کے آفیسران نے زرعی پیداوار میں کمی پر ان ڈیلرز کے خلاف ایکشن لیا ہو یاپھر دونمبر بیجوں، ناقص اور غیر معیاری کھادوں کا لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا ہو۔ جہاں محکمہ زراعت کے آفیسر ہی جیب گرم ہونے پر آنکھیں بند کرتے ہوں وہاں یقینا زراعت کی تباہی کے ساتھ ساتھ زمینداروں اور کسانوں کا استحصال ہوتا رہے گا۔نصیرآباد میں انوکھی بیج کے نام پر انوکھا فراڈ کرنے والے محکمہ زراعت کے لاڈلے زرعی آفیسروں کے خلاف بلوچستان حکومت کی خاموشی دراصل گڈ گورننس اور میرٹ کی قلعی کھولنے کے مترادف ہے۔
بلوچستان میں دونمبر ادویات ،کھاد پیسٹیسائیڈ سمیت گھی و خوردنی اشیا ء کا مرکز بنتا جا رہا ہے جہاں فوڈ کنٹرول اتھارٹی کا کردار برائے نام ہے۔ اسی لئے بلوچستان میں ان ناقص ادویات ،زرعی بیجوں دونمبر اور ناقص خوردنی اشیاء کے باعث اموات اور بیماریوں کی شرح ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے اور ملک بھر میں سب سے کم عمری میں اموات کے کیسز بھی زیادہ یہیں رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والے زرعی فراڈز و اسکینڈلز اور زراعت کو تباہی سے دوچار کرنے والے محکمہ زراعت کے کالی بھیڑوں اور زرعی آفیسران کی غفلت لاپرواہی اور زرعی پیداوار کی کمی پر محکمہ زراعت نصیرآباد کے آفیسروں کا احتساب کیا جائے۔
اور زمینداروں کے معاشی قتل کرکے والے زرعی آفیسران کے خلاف نیب یا محکمانہ انکوائریز کرکے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ تاکہ صوبے میں زراعت سمیت زمیندار کسان تباہی اور معاشی بدحالی سے بچ سکیں۔ بصورت دیگر صوبے کی زراعت ان دونمبر بیجوں کھادوں ادویات کے باعث مکمل تباہی سے دوچار ہوگی۔ جس سے بلوچستان میں زرعی بحران سمیت خوراک کا اہم مسئلہ درپیش ہوگا جس کا ازالہ بعد میں مشکل ہو سکے گا۔