|

وقتِ اشاعت :   February 15 – 2015

گزشتہ دنوں ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے وفاقی حکومت سے یہ جائز مطالبہ کیا کہ وفاق بلوچستان کے لئے 500ارب روپے کا اضافی رقم صرف ترقی کی رفتار کو تیز تر کرنے کے لئے دے۔ بلوچستان کی حکومت نے وفاق سے یہ جائز اور بروقت مطالبہ کیا ہے کیونکہ وفاقی حکومت نے نہ صرف بدنیتی کی بنیاد پر بلوچستان پر سالانہ چند ارب روپے حالیہ سالوں میں خرچ کئے۔ گزشتہ سالوں میں ترقیاتی اخراجات چند کروڑ تھی۔ دوسرے الفاظ میں بلوچستان کو ضرورت کے مطابق فنڈ نہیں دیئے گئے۔ ہر سال کے آخر میں یہ انکشاف ہوتا رہا کہ بلوچستان کو منظور شدہ فنڈ کا صرف 40فیصد ملا یا 50فیصد ا۔ کبھی کبھار یہ فنڈ 60فیصد تک ملا۔ کبھی یہ نہیں ہوا کہ منظور شدہ رقم کا 100فیصد بلوچستان پر خرچ ہوا۔ بلوچستان کے ساتھ یہ امتیازی سلوک گزشتہ 67سالوں سے جاری ہے۔ یہ امتیازی سلوک کبھی بھی تبدیل نہیں ہوا۔ اس کے برعکس وفاق پنجاب پر سالانہ ایک ہزار ارب خرچ کرتا رہا جبکہ خود پنجاب کا صوبائی ترقیاتی بجٹ 500ارب روپے کا اور بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک کا ترقیاتی فنڈ تقریباً 500ارب روپے ہے۔ اس طرح سے پنجاب کی ترقی کے لئے حکومت پاکستان 2000ارب روپے خرچ کرتی ہے۔ یہ صرف ترقیاتی اخراجات ہیں۔ نارمل بجٹ کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان کا وفاقی ترقیاتی بجٹ کبھی بھی 40ارب سے زیادہ نہیں رہا۔ حالیہ سالوں میں اس پر 50فیصد لازمی طور پر کٹوتی کرنے کے بعد صرف 20ارب روپے خرچ کیے جاتے رہے۔ ظاہر ہے کہ بلوچستان ترقی کی دوڑ میں پنجاب سے دو سو سال پیچھے رہ گیا ہے۔ بلوچستان آدھا پاکستان ہے۔ اگر بلوچستان یا آدھا پاکستان پسماندہ رہا تو پورا پاکستان کس طرح سے ترقی یافتہ کہلائے گا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پنجاب کی طرح بلوچستان میں بھی سالانہ دو ہزار ارب روپے خرچ کئے جائیں۔ ہمارا مطالبہ اور جائز مطالبہ یہ ہے کہ ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچہ پہلے تعمیر کی جائے تاکہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار بلوچستان میں سرمایہ کاری کریں۔ 10سال قبل یورپی ممالک نے گوادر کے قریب جہاز سازی کی صنعت کے لیے حکومت پاکستان سے رجوع کیا تھا۔ ان کی تجویز تھی کہ یورپی ممالک 100فیصد سرمایہ کاری خود کریں گے حکومت پاکستان صرف گوادر بندرگاہ کے قریب ان کو زمین الاٹ کرے جو حکومت پاکستان کا اس ترقی میں جائز حصہ سمجھا جائے گا۔ 10سال گزرنے کے بعد بھی حکومت پاکستان نے نہ یورپی ممالک کو جواب دیا اور نہ ہی زمین الاٹ کی۔ اگر زمین الاٹ کردی جاتی تو کئی سال پہلے گوادر اور پسنی کے قریب جہاز سازی کی صنعت زوروں پر ہوتی اور لوگوں کو روزگار اور حکومت پاکستان کو ملین روپے ٹیکس اور منافع ملتا۔ اس سے وفاقی حکومت کی نیت کا سوال اٹھتا ہے وہ بلوچستان سے متعلق ترقیاتی پروگرام کو اہمیت نہیں دیتے یا بلوچستان کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس کو ایک وفاقی اکائی سمجھتے ہیں۔