بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر موت کا رقص جاری ہے ، ایک ہی گھر میں تین تین لاشیں، بہن روئے تو کس بھائی کے لئے، ماں کس بیٹے کی خاطر آنسو بہائے ، شہداء کے لواحقین کے آنسو ختم ہوگئے لیکن حادثات میں مرنے والے کی تعداد میں کمی نہ آئی۔سال 2020ء بلوچستان کے لئے ایک عبرت ناک سال رہا اور سال 2021 کی ابتداء بھی حادثات سے ہوئی، سال کے پہلے روز ہی اس خونی شاہراہ نے لوگوں کے خون سے نئے سال کا جشن منایا ،ایک ہی خاندان کی کئی زندگیاں اس شاہراہ نے چھین لی۔ سوشل میڈیا پران حادثات کے ویڈیو دیکھنا اپنی جگہ، ان حادثات کے بارے میں سن کر انسان کا جسم کانپنا شروع ہوجاتا ہے۔
کراچی کوئٹہ و کراچی گوادر قومی شاہراہوں پر آئے روز کئی حادثات پیش آتے ہیں ان حادثات میں سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوجاتے ہیں۔ اس شاہراہ کودو رویہ کرنے کے لئے عوامی حلقوں کی جانب سے کئی بار قومی شاہراہ کو بلاک کیا گیا لیکن حکومت کی جانب انسانی جانوں کے ضائع ہونے پر کوئی اقدام نظر نہیں آرہا۔ الیکٹرونک میڈیا نے بھی ہمیشہ کی طرح بلوچستان کو نظر اندازکردیا ہے۔ اسی طرح وفاقی حکومت کی جانب سے بیس سال پہلے کی بنائی گئیں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، تیار ہونے سے اب تک ان شاہراہوں پر تعمیراتی کام جاری ہے۔
ہر مہینے ایک پل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے، پھر اس پل کو بنانے کے لئے چھ مہینے ٹینڈر کرنے میں لگتا ہے ،مرمت کا کام سال بھرجاری رہتاہے لیکن مرمت کم اور کرپشن زیادہ ہوتی ہے ۔ اب تو سننے میں آرہا ہے کہ اس قومی شاہراہ کو بھر پور کوششوں کے بعد ڈبل کرنے کے اعلانات بھی ہوگئے ہیں لیکن این ایچ اے و دیگر حکام اس خبر سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔
کئی دفعہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے گاڑی مالکان کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے۔ عدالتوں میں یہ کیس بھی جاری ہے کہ کچھ بس کمپنی مالکان رولز کی خلاف ورزی کرکے روٹ پر سفر کرنے والی دوسری گاڑیوں کو پریشان کر رکھا ہے، یہ کمپنی ڈرائیور روٹ پر تیز رفتاری اوراوور ٹیک کرتے نظر آتے ہیں ۔المحمود بس کمپنی کے ڈرائیوروں نے اس معاملہ میں حد کردی ہے کمپنی کے خلاف کارروائی کرکے رجسٹریشن ختم کردی گئی تھی اور اس کو کراچی کوئٹہ قومی شاہراہ پر سفر نہ کرنے کانوٹس بھی جاری کردیا گیا تھا ۔
لیکن مذکورہ کمپنی نے دولت کا استعمال کرکے احکامات جاری کرنے والوں کے خلاف عدالت کا رخ کیا، اس طرح اس کی بسیں دوبارہ شاہراہوں پر نظر آرہی ہیں۔اگر دیکھا جائے تو اس قومی شاہراہ پر سفر کرنا انتہائی مشکل اور ہمت کا کام ہے۔حادثات کی ایک وجہ ڈرایئوروں کا غیر تربیت یافتہ اورٹریفک قوانین سے آگاہی نہ ہونا بھی ہے ۔اگر ان ڈرائیوروں کے پاس لائسنس ہو بھی تو انہوں نے کبھی لائسنس آفس کا رخ نہیں کیا ہے بس بیٹھے بیٹھے ان ڈرائیوروں کو لائسنس مل جاتا ہے ،ہونا یہ تو چاہیے کہ یہ خود حاضر ہوں ، ان سے رولز کے بارے میں سوالات ہونے چاہئیں کہ رش میں کس طرح سامنے والے سے رابطہ رکھنا ہے۔
میں اکثر سفر کرتا ہوں سفر کے دوران ڈرائیور حضرات سے گپ شپ کے دوران رولز بھی معلوم کرتاہوں کہ سامنے والے نے یہ لائیٹ کا اشارہ دے کر کیا کہا۔۔۔۔۔یا کیا ظاہر کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔ لیکن اکثر ڈرائیوز الٹا اشارہ بھی دیتے ہیں جو حادثات کا سبب بنتا ہے۔ دوسری جانب آج کل زمباد گاڑی والے جو مسافر گاڑیوں سے بھی دولت کی ہوس میں زیادہ تیز رفتار ہوتے ہیں ایک تو انکا اسٹرنگ بھی کلینڈر سائیڈ کی طرف ہوتاہے جب کسی گاڑی کو پیچھے کی طرف سے کراس کرتے ہیں تو سامنے سے ڈرائیور کو کچھ نظر نہیں آتا کہ کیا آرہا ہے کیا نہیں۔
یہاں تک ڈرائیور حضرات کی بھی کافی غفلتیں ہیں۔دوسری جانب ٹریفک پولیس کا کردار بھی قابل رشک نہیں، کراچی کوئٹہ قومی شاہراہ پر ٹریفک پولیس کا کردار بھی زیرو بٹہ زیرو ہے۔ ضلع قلات و مستونگ میں ٹریفک پولیس کی گاڑیاں ایک ہی جگہ پر جھنڈ کی شکل میں نظر آتی ہیں ۔ضلع سوراب سے لسبیلہ تک ٹریفک پولیس کا نام نشان تک نہیں ،یہ ایریا خطرناک پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے زیادہ تر حادثات اسی ایریا میں ہوتے ہیں ۔اس قومی شاہراہ کو دو رویہ کرنے کے لئے عوامی حلقوں نے ہر پلیٹ فارم پرجنگ لڑی ہے ،کئی بار شاہراہ کو بند بھی کردیا گیالیکن ہنوز حکمران خواب خرگوش میں ہیں اور بلوچستان کے عوام شاہراہوں پر کچلے گئے مسخ شدہ لاشیں بھی اٹھارہے ہیں ۔