بلوچستان عوامی پارٹی ملک کی سب سے کم وقت میں بننے اور بلوچستان میں پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے والی پہلی سیاسی جماعت ہے بلاشبہ راتوں رات بنانے والی جماعت کے مہربانوں نے دریا دلی کا بہترین مظاہرہ کرکے اسے کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان جیسے صوبے میں عرصہ دراز سے عوامی مسائل اور صوبے کے حقوق کیلئے قومی اور صوبائی سطح پر سیاست یعنی قومی اور نیشنلسٹ سیاست کی جا رہی ہے لیکن وہ عوام میں اتنی جلدی اور واضح پذیرائی حاصل کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں کبھی کسی سنگل پارٹی نے حکومت نہیں بنا سکی ہے۔
ہمیشہ کولیشن یعنی اتحادی سیاسی پارٹیوں نے حکومت سازی کی ہے جس کے باعث ہر صوبائی حکومت عوامی مسائل کو ڈیلور کرنے میں ہر مرتبہ ناکام ہوتی رہی ہے۔ 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری ایام میں یعنی مارچ 2018 میں سینٹ کے انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ ن نیشنل پارٹی اور پختون خواہ میپ کی اتحادی حکومت کے وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کیلئے مسلم لیگی اراکین بلوچستان اسمبلی نے بغاوت کرنے کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ نون کے چوبیس میں سے بیس اراکان نے وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا۔
یہ اختلافات دراصل سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ ن اور نواز شریف کو اکثریت کے بجائے اقلیت دلانے کا ایک جامع منصوبہ بندی کا آغاز تھا،بلوچستان کی اکثریتی پارٹی اختلافات سے دوچار ہوئی۔ سیاسی اختلافات یا مسلم لیگ ن کو سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کیلئے نواب ثناء اللہ خان زہری کی اتحادی حکومت کو تختہ دار بنا دیا گیا۔اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ کوئٹہ اور باغی اراکین سے روابط کے باوجود اراکین اسمبلی اپنے ہی وزیر اعظم سے ملاقاتیں نہ کرنے اور وزیر اعظم کو زیادہ دباؤ اور پریشر ہونے کے باعث وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک واپس نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
بالآخر نواب ثناء اللہ خان زہری نے استعفیٰ دے دیا پھر وہی مسلم لیگی اراکین نے سینٹ سے آزاد اراکین منتخب کرائے جو بعد ازاں بلوچستان عوامی پارٹی کے چھتری تلے بیٹھ گئے۔ 2018 کے الیکشن سے قبل باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) بنائی گئی اور دوران الیکشن ہی باپ کی رجسٹریشن ہوئی اور انہیں گائے کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا۔ میرے خیال میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی پوری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا جس کی انتہائی مختصر اور قلیل مدت میں رجسٹریشن پراسیس مکمل کی گئی اور پھر بلوچستان عوامی پارٹی نے اس طرح کا متحرک و فعال کردار ادا کیا کہ وہ صوبے کی سب سے بڑی پارلیمانی سیاسی پارٹی بن گئی۔
یعنی اسے اکثریتی پارٹی بنا کر واقعی اسے باپ بنادیا گیا۔ باپ پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں چوبیس اراکین اسمبلی ہیں۔ مختصر اور قلیل مدت میں یہ اعزاز بلوچستان عوامی پارٹی اور باپ بلوچستان کو ہی جاتا ہے۔ نام سے ہی محسوس ہوتا ہے کہ واقعی باپ اب بلوچستان کا باپ بن گیا ہے اور باپ کے مددگار اور سپورٹرز ہی باپ کے اصل وارث اور جان نشین ہیں جس کا اندازہ آپ دو سے تین ماہ کے اندر پارٹی بننے اور اکثریٹ حاصل کرکے بلوچستان کے عنان اقتدار کے مالک بن جانے سے ہی لگا سکتے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی بناتے وقت پارٹی کے آرگنائزر جام کمال خان سعید ہاشمی،جان جمالی سمیت دیگر نے اعلان کیا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی صوبے کی تقدریر بدل دے گی۔
بلوچستان کو پسماندہ، تباہ حالی اور محرومیوں سے دوچار کرنے والی قوتوں کا احتساب کریں گے۔ اور انشاء اللہ بلوچستان اب باپ کی قیادت میں دیگر صوبوں سے ترقیاتی میدان میں ٹاپ کرکے حقیقی معنوں میں ترقی کا بھی باپ بن جائے گا۔ بلوچستان اور عوام کی ترقی، بہبود اور تقدیر کے فیصلے باپ کے اراکین اسمبلی یعنی بلوچستان کے تمام سیاسی فیصلے بلوچستان اور کوئٹہ میں ہونگے۔لاہور، مری، اسلام آباد، راولپنڈی میں فیصلے کرنے کا اب دور گزر چکا۔بلوچستان میں باپ ہی سیاسی معاشی اکنامکیکلی تبدیلی لائے گی۔
بلوچستان میں حقیقی تبدیلی کیلئے تین نسلوں سے خدمات سرانجام دینے والے والی لسبیلہ جام کمال خان کو وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری دیکر ترقی کی پہلی بنیاد رکھ دی گئی۔ باپ حکومت کی کارگردگی، بلوچستان کی ترقی،عوام کی پسماندگی، محرومیوں اور بدحالی کا تذکرہ کسی دوسرے کالم میں کیا جا ئے گا لیکن سردست موضوع سینٹ انتخابات ہیں۔ سینٹ انتخابات کے حوالے سے خبریں گردش کرنے لگی ہیں کہ بہت سے اتحادی الگ الگ محو پرواز ہیں۔ بہت سے دوستوں میں اختلافات کی افواہیں زیر گردش ہیں۔ کہیں اختلافات تو کہیں مایوسیوں کے رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں۔
کہیں باہر کے لوگوں کو سینیٹرز بنانے کے فیصلے باپ نے خود ہی کیے ہیں تو کہیں باپ کے فیصلوں کو باپ ہی کے اراکین ماننے سے انکار کر رہے ہیں آج وہی باپ جو پہلے مسلم لیگ کا حشر نشر کر دیا تھا مسلم لیگ ن کو سینٹ میں پانچ نشستوں سے محروم کر دیا تھا وقت نے انگڑائی لے لی ہے۔ مکافات عمل کہیں یا پھر باہر کے مسلط فیصلے،باپ اب اختلافات کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تین گروپوں میں بٹ چکی ہے صادق سنجرانی گروپ، نصیرآباد گروپ اور جام کمال خان گروپ کے بعد اب اطلاعات ہیں کہ پشتون گروپ بھی اپنی فیصلے کرنے کیلئے باہمی مشاورت کررہی ہے۔
وہی اراکین اسمبلی جنہوں نے مسلم لیگ ن کو سینٹ میں ووٹ دینے کے بجائے کسی کے حکم پر سینیٹرز کا انتخاب کیاتھا۔ اب وہی پرانے چہرے ایک بار پھر سیاست کے میدان کار زار میں انقلاب برپا کرنے کیلئے کمر کس لئے ہیں۔ ظلم کی انتہا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں سینکڑوں خواتین سیاسی رہنماء ہونے کے باوجود قرعہ فال خیبر پختون خواہ کے ایک بااثرخاتون ستارہ ایاز کے نام نکلا ہے جبکہ سب سے اکثریتی علاقے نصیرآباد ڈویژن جوکہ باپ کا گڑھ ہے اس ڈویژن سے کسی کو بھی نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔پہلی مرتبہ نصیرآباد کو بجٹ میں کم ترقیاتی منصوبے اور اب سینٹ میں نمائندگی نہ دیکر باپ نے سیاست کے بجائے۔
روایتی احکامات کو برسرچشم تسلیم کر لیا ہے۔ اسی وجہ سے نصیرآباد ڈویژن کے اراکین نے سینٹ انتخابات پر عدم تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنا فیصلہ خود کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اب تک اس طرح کے اعلانات اندون خانہ کیے گئے ہیں باپ کے اراکین اسمبلی تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو والی پالیسی پر گامزن ہیں اگر کسی کو کوئی حکم یا مداخلت کرنے کی اجازت نہ دی گئی تو بالکل سینٹ کے انتخابات میں بی اے پی اکثریت کے باوجود اقلیتی نشستیں حاصل کریگی۔ سینٹ انتخابات دراصل بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت، خیر خواہوں، رہبروں،اراکین اسمبلی کیلئے امتحان ہے۔
اگر وہ باہر سے آنے والے مہمانوں کو سینیٹر منتخب کرتے ہیں۔ تو پھراسے اپنے منشور اور بلوچستانی قوم سے دھوکہ کے مترادف سمجھا جائے گا۔ بی اے پی کی طرح پاکستان تحریک انصاف نے بھی بلوچستان میں کسی پارٹی رہنماء کو سینیٹر بننے کا قابل نہیں سمجھا۔تحریک انصاف کو پورے بلوچستان میں شاید اپنے معیار کا سینیٹر ہی نہیں ملا اسی لئے تحریک انصاف نے بھی میرٹ اور انصاف کے تقاضے کے تحت باہر سے ہی بلوچستان کے اراکین اسمبلی سے سینیٹر منتخب کرانے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی بلوچستان کے سابق صدر سردار یار محمد رند نے شاید اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
اسی وجہ سے ان کے بیٹے اور تحریک انصاف کے رہنما سردارخان رند نے آزاد حیثیت میں سینٹ کا انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے جس سے پی ٹی آئی کو بلوچستان میں بھی بغاوت کا قوی خدشہ ہے۔ تاہم پی ٹی آئی نے ہمیشہ کی طرح بروقت یوٹرن لیکر عبدالقادر کے بجائے آغا ظہور شاہ کو سینٹ ٹکٹ دینے کا اعلان کیا ہے لیکن اس پر بھی پی ٹی آئی میں اختلافات تاحال برقرار ہیں۔ جمہوری وطن پارٹی جوکہ مرکز میں پی ٹی آئی اور بلوچستان میں باپ کی اتحادی جماعت ہے جس نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق نواب زادہ گہرام خان بگٹی نے واضح کیا ہے کہ اگر سرفرازبگٹی کو سینٹ کا ٹکٹ دیاگیا تو وہ پھر مرکز اور بلوچستان میں حکومتی اتحاد سے نکل جائے گا۔ بی اے پی نے اپنے سینیٹرز کا اعلان کیا ہے جن میں سرفراز بگٹی کو بھی ٹکٹ ہولڈرز میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ جمہوری وطن پارٹی اپنے سابقہ تنخواہ پر کام کریگی یا پھر مرکز اور صوبائی حکمران اتحاد سے الگ ہو کر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے گی۔غالب امکان ہے کہ جمہوری وطن پارٹی اس طرح کے فیصلے کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔
موجودہ حالات میں سینٹ کے انتخابات اپوزیشن اور حکومت دونوں کیلئے امتحان اور چیلنج بن چکے ہیں۔ اب کون ناراض اور کون راضی ہوتا ہے۔اس کا فیصلہ پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت کریگی تاہم اصل فیصلہ جو ہوگا پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے اراکین بنا چون و چرا قبول کرکے اسی نامزد سینیٹر کو ہی اپنا ووٹ دینگے۔ بلوچستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے فارمولے کے تحت جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہی اٹل ہوگا؟ یا پھر سینٹ میں اراکین اسمبلی آزادانہ طور پر اپنا ووٹ کا استعمال کرکے مقامی لوگوں کا انتخاب کریں گے۔
بلوچستان کی تاریخ میں اس طرح کی آزادانہ کردار کبھی بھی اراکین اسمبلی کو نصیب نہیں ہوا ہے کہ وہ آزادانہ اپنے ووٹ استعمال کریں۔ انہیں جس طرح ہانکا یا حکم دیا جاتا ہے وہ باادب ہو کر اسی کی چرنوں میں اپنا ووٹ رکھ دیتے ہیں لیکن کیااس بار بھی سو فیصد ایسا ہی ہوگا؟یہ تمام تر قیاس آرائیاں 3 مارچ کو ہی واضح ہو جائیں گی۔