|

وقتِ اشاعت :   February 20 – 2021

SOUTH ASIAN AGRICULTURE REVOLUTION?
گزشتہ موسم خزاں میں مودی سرکار کی جانب سے’’ زرعی انقلاب‘‘ کے لیے نئے قوانین کے نفاذ نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر کسانوں کے احتجاج کو جنم دیا۔ اس احتجاج کا مرکز ہندوستان میں زرعی اہمیت کی حامل ریاستیں پنجاب، ہریانہ اور یوپی رہیں۔زرعی بحران ایک اہم مسئلہ ہے، جو صرف بھارت تک مخصوص نہیں، دنیا بھر میںجاری متعدد اقدامات کا مقصد زراعت کو زیادہ موثر بنانا اور غربت اور کاشت کاروں کے مالی انحصار کا مقابلہ کرنا ہے۔جنوبی ایشیا میںملازمتوں کا بڑا حصہ زراعت سے جڑا ہے اور اس کا مختلف ممالک کی GDPمیں اہم کردار ہے۔

بڑھتی آباد ی کو غذائی تحفظ فراہم کرنے کا عمل برآمدی کاروبار میں مزید مواقع فراہم کرتا ہے۔البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ شعبہ زراعت کو نظر انداز کرنا اِس خطے میں موجود غربت کی بڑی وجہ ہے۔بھارتی آبادی میں کسانوں کا تناسب 60 اور بھارتی GDPمیں حصہ 18فی صد ہے۔ 85 فی صد چھوٹے کاشت کاروں کے پاس تین ایکٹر سے بھی کم زرعی اراضی ہے۔اِدھرپاکستانیGDPمیں زراعت کا حصہ 18.9ہے، جب کہ محنت کش طبقے کا 42.3اس شعبے میں مصروف عمل ہے۔تقسیم کے بعد اس ضمن میں، نیم دلی سے کیے جانے والے اقدامات مختلف نظریات سے ترغیب شدہ تھے۔

سوشلسٹ فکر کے تحت نہرو نے زرعی اصلاحات لاتے ہوئے بڑی جاگیروںکاخاتمہ کیا۔پاکستان میں بشمول بھٹو خاندان ،بڑے جاگیردار حکومت اور پارلیمنٹ کا حصہ رہتے آئے ہیں، صرف کھوکھلے دعوے اور وعدے کیے گئے یا پھرنام نہاد زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں۔ یہاںپانچ فی صد افراد کے پاس 64 فی صد زرعی زمینوں کا اختیار ہے۔ دیہی گھرانوں میں سے نصف بے زمین ہیں۔ مغرب نے 1960 میںنئی ٹیکنالوجی اختیار کرتے ہوئے’’ سبز انقلاب‘‘ کی طرح ڈالی، جس میں گندم، چاول اور اناج کی اعلیٰ درجے کی اقسام شامل تھیں۔

یہ عمل کیمیائی کھاد، زرعی کیمیکلز پانی کی منظم فراہمی (بشمول آب پاشی) اور میکانائزیشن سمیت کاشت کے نئے طریقوں سے وابستہ ہے۔مغرب کی ترقیاتی امداد نے ان طور طریقوں کو برصغیر میں بھی متعارف کرایا ،جن کے نتائج منفی رہے، گو یہ ارادی نہیں تھے۔ اِن طریقوں کے نتائج بڑھتی غربت، ماحولیاتی نقصانات اور عدم مساوات کی صورت سامنے آئے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ’’اکانومک لبرلائزیشن ‘‘(economic liberalization)کے لئے عالمی تجارتی تنظیم(WTO) کے عزم کے تحت ہندوستانی حکومت زرعی پیداوار میں بڑھوتری سے غذائی تحفظ میں اضافے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان ‘انقلابی’ اقدامات میں زرعی شعبے میں غیر ملکی کارپوریٹ سیکٹر کو سرمایہ کاری کی دعوت دینا،ساتھ ہی کنٹریکٹ فارمنگ اور مارکیٹ کی قیمتوں پر غذائی اشیا کی تجارت کی اجازت دینا شامل ہے۔مودی سرکار کی’’ اکانومک لبرلائزیشن ‘‘کی پالیسیوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو معیشت کے لگ بھگ تمام شعبوں میں حاوی کر دیا اور یوں مقامی شعبوں اور اداروں کی ترقی میں گراوٹ آئی۔ سبز انقلاب سے بھی یہی نتائج متوقع ہیں۔چند دولت مند کسان، جن کے بڑی جاگیر یںہیں، انھیں ضرور فائدہ ہوگا، مگر اکثریت میں موجود غریب کسان یا تو اُنہی کارپوریشنز پر انحصار کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

یا پھر اپنی زمین کھو کر اپنی محنت فروخت کرتا اورروزگار کی تلاش میں شہری علاقوں کی کچی بستیوں کا رخ کرتا نظر آئے گا ۔یعنی اس پالیسی سے جنوبی ایشیا میں غربت اور عدم مساوات میں کمی نہیں، الٹا اس میں اضافہ ہوگا۔غذائی تحفظ کے لیے منظم و مربوط زرعی پیداواری عمل ضروری ہے۔بالخصوص ایسے حالات میں جب ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں زرعی اراضی کو ناکارہ بنا رہی ہیں۔بڑھتی صحرائی آبادی اور پانی کی قلت دنیا کی آبادی کے بڑے حصے کے روزگار کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔زرخیز زمین مزید بیش قیمت ہوگئی ہے۔

دنیا کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمیں عالمی منافع میں اضافے کے بجائے اشتراک اور ہمدردی کے جذبے کی ضرورت ہے۔ ڈبلیو ٹی او (WTO)کی جانب سے آج مغرب کی جدید آئیڈلوجی ’’ڈیجیٹل ایگری کلچر‘‘ کو فروغ دیا جارہا ہے۔یہ ایسے ٹولز ہیں، جو معلومات یا الیکٹرانک ڈیٹا اکٹھا کرنے، محفوظ اور شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور یوں پوری ایگری کلچر فوڈ چین پر اثرانداز ہوتے ہیں۔”Agriculture 4.0″گزشتہ زرعی انقلابات کے بعدنئے زرعی انقلاب کے طور پر اپنے کردار کی نشان دہی کرتا ہے۔

اسکالرز نے مستقبل میں مزدوری کے روایتی تصور سے دوری،سرمائے سے معمولی دوری اور انسانی سرمائے کے استعمال میں اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔زراعت میں افرادی قوت کی گھٹتی ضرورت کے ساتھ ایک معاشرتی ردعمل، ممکنہ طور پر مصنوعی ذہانت یا روبوٹس کے استعمال کے آس پاس کے زمانے میں، چوتھے انقلاب کے ساتھ پیدا ہوگا۔ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ کوالیفائیڈ ماہر اسٹاف، جو درکار مہارتوں کے حامل ہو، ان کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا۔فیس بک اور دیگر بین الاقوامی کارپوریشن زرعی پراجیکٹس کے لیے ڈیجیٹل ٹولز فراہم کرنے کے کاروبار میں اتر چکی ہیں۔2020 کے Farmers Produce Trade and Commerce ایکٹ میں انٹرنیٹ اور فعال ڈیوائسز کے ذریعے آن لائن خرید و فروخت کے متبادل تجارتی چینلز اور الیکٹرانک تجارت کی اجازت شامل ہے۔

ادھر امبانی اور ان کا ’’ریلائنس گروپ ‘‘ان قوانین کی منظوری اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد میں اپنی کسی بھی طرح کی شمولیت سے انکار ی ہے۔ البتہ مودی حکومت ان کی جانب سے اُسے پرموٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے،جس کے بعد کسانوں کی جانب سے اُن کے ٹاورز کی توڑ پھوٹ کا خدشہ ہے۔ فیس بک Jio Platforms میں 43,574کروڑ کی سرمایہ کاری کرے گا، جو ریلاینس انڈسٹریز کی ملکیت ہے۔اس سرمائے کے نتیجے میں مختلف شعبوں میں 60 ملین مائکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، 120 ملین کسان، 30 ملین چھوٹے تاجر۔

اور لاکھوں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لئے ڈیجیٹل حل فراہم کیے جائیں گے۔واٹس ایپ، جو فیس بک ہی کی ملکیت ہے، اس ڈیل میں کلیدی کردار ادا کرے گا، جس کا اہم فیچر ’’واٹس ایپ پے‘‘تیاری کے مراحل میں ہے۔البتہ مکیش امبانی کا دعویٰ ہے کہJio ہندوستان میں، ہندوستانیوں کے لیے ہندوستانیوں کا تیار کردہ ایک ’’اسٹارٹ اپ‘‘ ہے اور ہمارے دلوں میں اس کے لیے خاص مقام ہے۔اس ’’خاص مقام ‘‘کا مطلب بدحالی کے شکار کسانوں کی مشقت پر بے پناہ منافع کمانا ہی ہوسکتا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی سیڈ کمپنی ،مونسانٹو (Monsanto)بیجوں کی عالمی ملکیت میں تقریباً ایک چوتھائی حصہ (23 فی صد) کی حصہ دار ہے۔پاکستان میں مونسانٹو نے عملی طور پر PT بیجوںکے ضمن میں قائم مقامی لیب اور تحقیقاتی اداروں کو کام بند کرنے پر مجبور کردیا، اس سے معیشت اور ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
ہندوستانی کاشت کار یہ سمجھ سکتے ہیں کہ آج وہی کچھ دہرایا جارہا ہے، جو برطانوی زرعی انقلاب یا دوسرے زرعی انقلاب کے دوران رونما ہوا تھا۔ جب برطانیہ میں زرعی پیداوار میں غیرمعمولی اضافہ ہوا، اب اُس کپاس سے زیادہ کپاس کی ضرورت تھی، جو وہ اپنی محدود زمین پر اگا سکتے تھے۔

روئی کی جدید مشینری نے ہندوستانی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ کمپنی کے فوجیوں نے خواتین کی لوم مشینیں اور دیگر اوزار توڑ ڈالے۔ بنگال کی صنعتی ساکھ مجروح کرکے برطانیہ صنعتوں کی بنیاد رکھی گئی۔تمام کپاس برطانیہ پہنچا دی گئی، تاکہ وہ انگریزوں کی ٹیکسٹائل صنعت کا پیٹ بھر سکے، اور یوں دیسی کپاس کی بُنائی کو، جو صدیوں سے دنیا بھر میں بہترین ململ تیار کر رہی تھی، ختم کردیا گیا۔آمدنی اور خوراک کی قلت سے قحط کا ظہور ہوا، جس کی بابت گورنر جنرل نے 1834 میں ان کرب ناک الفاظ میں اظہار خیال کیا۔ ”اس المیے کی تجارت کی طویل تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ملے۔

روئی کے بننے والوں کی ہڈیاں ہندوستان کے میدانی علاقوں کو ورغلا رہی ہیں۔”(ہندوستانی تاریخ سے متعلق کارل مارکس کے خیالات کو ششی تھرور نے اپنی کتاب”An Era of Darkness” میں بھی شامل کیا)

اس ہندوستانی رکن پارلیمنٹ کے مطابق۔۔۔ جو یواین کا ڈپٹی سربراہ رہ چکا ہے، اور جس کے قلم سے متعدد کتابیں نکلیں، جنوبی ایشیا اور برصغیر میں بہیمانہ لوٹ مار کا آغازاصل ولیم ہاکنگس سے ہوتا ہے،جس نے 1613-14 میں شہنشاہ جہانگیر کے دور میں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمایندے کے طور پر ہندوستانی سرزمین پر تجارت کا آغاز کیا۔ کمپنی کی بنیاد چند برس پہلے لندن میں رکھی جاچکی تھی۔تب تومغل دربار میں انھیں زیادہ احترام اور اہمیت حاصل نہیں تھی۔البتہ 150برس بعد 1765 میں انگریزوں نے کمزور حکمراںپر غلبہ پا کر بہار، بنگال اور اڑیسہ میں شاہی محصولات کے عہدے داروں کو کمپنی کے عہدے داروں سے تبدیل کر دیا۔

طاقت حاصل کرنے کے بعد کمپنی کی نجی فوج رابرٹ کلائیو کی قیادت میں(بعد میں لارڈ بنا) پلاسی میں بنگال کے حکمران سراج الدولہ کو شکست دے چکی تھی۔کیوں کہ انگریز تاجر تھے، تو انڈیا کی ٹیکسٹائل صنعت میں یکدم اضافہ ہوا۔پارچہ بافی کی صنعت(hardloom industry) میں 33 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اٹھارویں اور اکیسویں صدیوں میں خاصی معاشی مماثلت ہے۔حاکم بننے کے بعد کمپنی کے طریقے میں درشتی در آئی۔مقامی’’ پراکسی ‘‘پر مشتمل ان کا جدید طریقہ کار زیادہ گھاتک ہے، جس کی قیمت مقامی آبادی ادا کرتی ہے۔

بھارتی کسانوں کے مقابلے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حمایت کرکے مودی اور بی جے پی متوقع قحط کو مزید قریب لے آئیں گے۔ بھوک کی وبا نے ’’پری کولونیل‘‘ ہندوستان میں لاکھوں افراد کی جان لے لی تھی۔جس طرح 18 ویں اور 19 ویں صدی میں مقامی افراد نے ”ایسٹ انڈیا کمپنی” کے اپنے برطانوی آقاؤں کی ہدایات پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا تھا، واضح خطرہ ہے کہ اس بار بھی وہی کیا جائے اور ویسے ہی خوف ناک نتائج سامنے آئیں۔اس کے برعکس 1985 تا 1988 پاکستان میں سرتاج عزیز اور 1979 میں بنگلا دیش میں میجر جنرل (ر) نور الاسلام جیسے نمایاں، باصلاحیت اورپر عزم افراد کی اعلان کردہ مثبت پالیسیوں پر غور کریں۔

سرتاج عزیز1984 میں FAO سے لوٹنے کے بعد زرعی وزیر بنے۔اُن کے اقدامات کے ، جن میں آبی وسائل کا تحفظ شامل تھا، تین پہلو اہم تھے۔۱: گندم کے راشنگ سسٹم کو ختم کرنا ۔۲:چاول اور کاٹن کے لیے سپورٹ پرائز کو ختم کرنا، مگر چینی اور گندم کے لیے برقرار رکھنا۔ ۳:زرعی مصنوعات کی قیمت کا ان پٹ کے ذریعے تعین کرنا، تاکہ کاشت کاروں کو مناسب قیمتیں مل سکیں۔دیگر اقدامات کی طرح جن میں مچھلی اور پولٹری فارمنگ کا فروغ اور’ گرامین بینک ‘کا تصور شامل تھا، جنر ل اسلام نے، جن کا نک نیم Shishu تھا،تین اضلاع رنگ پور، دنج پور اور بوگرا میں کھانے کی عادات کو یکسر تبدیل کر دیا۔

انھوں نے خشک موسم سرما میں گندم کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی۔(اس وقت امریکی سفارت خانے کے پاس غذائی امداد کی مد میں7 ملین ڈالر تھے اورامریکی سفیر جن چار ممالک سے گندم کے بیج خریدنے پر مسرور تھے، پاکستان ان میں شامل تھا)یوں گندم پیداوار 0.12 ملین ٹن سے بڑھ کر 0.78ملین ٹن تک پہنچ گئی۔چپاتی کھانے کے چلن نے چاول پر انحصارکو کم کیا۔ اس طرح کے اقدامات اب بھی ممکن ہیں، ضرورت سرتاج عزیز اور نورالاسلام جیسے مخلص لوگوں کی ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں میں ہونے والی پیش رفت کو جنوبی ایشیا پر تھوپنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

برصغیر کی تاریخی، سماجی اور معاشی صورت حال مختلف ہے۔اسے سمجھنے کی ضرورت ہے، تاکہ عوام کی زندگی اور اس خطے میں موجود ممالک کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔کسی انقلا ب کے بجائے ہمیں قانونی، معاشی اور معاشرتی میدان میں ارتقائی عمل کی ضرورت ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس سے استفادہ کر سکیں۔زرخیز اراضیاں، آبادی کے ساتھ ساتھ ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں، جنھیں ترقی کے سراب کے تعاقب میں خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں)