گر دیکھا جائے دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں،سائنسی نقطہ نظر سے جسمانی طور پر ایک جیسے ہیں۔ایک بادشاہ کا بیٹا ہویا ایک مزدور کا،رب کائنات نے کم وپیش تمام اعضاء کے ساتھ انسانوں کو ایک جیسا پیدا کیا۔تمام انسانی رگوں میں خون ہی دوڑتا ہے۔ہر انسان ماں کے رحم میں پرورش پاتا ہے،ہر انسان کی ابتدائی خوراک دودھ ہوتی ہے۔گویا ہر لحاظ سے قدرت نے انسان کو ایک جیسا پیدا کیا۔لیکن سماجی ناہمواری ہر انسان کو الگ الگ کرتی ہے۔بعض بچوں کو موافق ماحول میں اور کچھ کو ناخوشگوار ماحول میں پرورش ملتا ہے۔
اس سے سماجی فرق پیدا ہوتا ہے۔قدرت کے ہاں ایک جیسی پیدائش کے باوجود انسان مختلف کلاسوں میں بٹا ہوا ہے۔اس طبقاتی نظام کو یکساں تعلیمی ماحول سے بآسانی ختم کیا جاسکتا ہے۔انگلینڈ میں ہم سے زیادہ طبقاتی نظام تھا،لیکن اس طبقاتی کشمکش سے برطانیہ نکل چکا ہے،اسکی اہم وجہ یکساں تعلیم کے مواقع تھے۔تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو کسی معاشرے میں پھیلی عدم مساوات کو دور کرنے کا ذریعہ ہوا کرتی ہے۔ہر وہ معاشرہ جہاں تعلیم لازمی اور مفت ہو اور بچوں کو یکساں مواقع ملیں،اس معاشرے کی مثبت تعمیر کو کوئی نہیں روک سکتا۔
سویڈن اور ناروے کے لوگوں کازمانہ قدیم میں بحری قزاقی کا پیشہ تھا،لیکن جب ان ریاستوں نے اپنے ہاں تعلیم کو لازمی،مفت اور عام کیا،آج ان ریاستوں کی جی ڈی پی کہاں تک پہنچ گئی۔امریکہ میں مساویانہ تعلیمی مواقع مہیا کرکے نسلی،سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا حل ڈھونڈا گیا۔اور اس طرح معاشرے کے پسماندہ طبقات کو موقع دیا گیا۔ آج امریکہ پوری دنیا کے لئے سپر پاور کی حیثیت رکھتا ہے۔دنیا کے تمام دانشور اورفلا سفروں کا خیال ہے کہ اگر تمام انسانوں کو یکساں تعلیمی رسائی دی جائے دنیا کے تمام مسائل کا حل تلاش کرنا نہایت آسان ہوگا۔
دنیا میں وہ ممالک جہاں لوگ غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں،اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں،ان کو روکنے کاآسان حل ان ممالک میں تعلیم کو عام کرنے میں پوشیدہ ہے۔تعلیم ایک ایسے زینہ کی مانند ہے جس سے انسان اپنی معراج تک پہنچ سکتا ہے۔موجودہ دنیا میں کسی بھی ملک کے لئے سب سے اہم ترین چیلنج ناخواندگی کا خاتمہ ہے۔لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ تعلیم جدید اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور معیاری ہو تب جاکر معاشرے میں موجود سماجی ناہمواری کا خاتمہ ہوسکتی ہے۔
انسانی زندگیوں میں جتنی تعلیم کی اہمیت ہے کسی اور چیز کی شاہد ہو۔ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں سماجی حوالے سے ہم مختلف طبقات میں بٹے ہوئے ہیں۔اس کی اہم وجہ کوالٹی تعلیم کی کمی ہے۔اگر معاشرے کو یکساں اور معیاری تعلیم دی جائے،طبقاتی نظام کا خاتمہ ممکن ہے۔ہمارے ہاں رواداری میں کمی تعلیم کی کمی سے مشروط ہے۔معاشرہ یکساں تعلیم کی بدولت طبقاتی ناہمواری سے بچ سکتی ہے۔پاکستان میں تعلیمی صورتحال بہتر نہیں ہے۔اسکی بہت ساری وجوہات ہیں۔سرکاری تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں یکساں تعلیمی نصاب نہ ہونے کی وجہ سے امیر کا بچہ کچھ اور پڑھ رہا ہے۔
اور غریب کی تعلیم کسی اور انداز میں ہورہی ہے۔پرائیویٹ سکولوں سے فارغ طلبہ اور سرکاری اسکولوں کے طلبا کی صلاحیتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔یہ فرق سماج میں بھی اونچ نیچ کا باعث بن رہی ہے۔دنیا میں جن ممالک نے ترقی کی ان کی پالیسیوں میں یکساں تعلیم کی فراہمی تھی۔تعلیم کو عام کرنا انکی اولین ترجیحات میں شامل تھی۔پاکستان میں تعلیمی درسگاہوں میں تین قسم کی تعلیم دی جارہی ہے۔پاکستان میں غریب کا بچہ سرکاری اسکولوں یا دینی مدرسوں سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔امیر کا بچہ مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کررہا ہے۔
مختلف مکاتب فکر کے اپنے مدارس ہیں۔وہ اپنے تعلیمی کورسسز اپنے اپنے مکتب فکر کو مدنظر رکھ کر بناتے ہیں۔پرائیویٹ سکولوں کی بہت ساری قسمیں ہیں۔کچھ پرائیویٹ سکولوں میں صرف وہ لوگ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں جن کے پاس دولت کی فراوانی ہو۔کچھ پرائیویٹ سکول ایسے ہیں،جہاں مڈل کلاس گھرانوں کے بچے پڑھتے ہیں۔سرکاری سکول بھی ایک جیسے نہیں ہیں۔کچھ سرکاری اسکولوں کی حالت قدرے بہتر ہے،کچھ سرکاری اسکولوں کی حالت بہت بری ہے۔تعلیمی تقسیم کے اس عمل سے معاشرے میں مختلف طبقات نے جنم لیا ہے۔
تعلیم کو یکساں اور عام کرنے میں ایک قوم بننے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔اگر تعلیم عام اور یکساں نہ ہو، قوم نہیں بنتی ہجوم ضرور بنتی ہے۔معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا ہے۔لسانی،مذہبی،طبقاتی تقسیم کو یکساں تعلیمی نظام ہی ختم کرسکتاہے۔دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں،وہاں پر بنیادی تعلیم یکساں اور عام ہے۔یاد رکھیں تعلیمی ادارے فیکٹریوں کے مانند ہیں،یہ معاشرے کیلئے فرد فراہم کرتے ہیں۔جیسے ا فراد معاشرے کو آپ دینا چاہتے ہیں ویسے ہی افراد تعلیمی ادارے دیتے ہیں۔ہمارے مختلف تعلیمی ادارے مختلف قسم کے افراد پیدا کررہے۔
جس سے معاشرے میں تقسیم کا عمل تیز تر ہوتا جارہا ہے۔تقسیم کے اس عمل کو تعلیمی اداروں میں بہتر پالسیوں سے ختم کیا جاسکتا ہے۔گویا یکساں تعلیمی نصاب،اور ہر شخص کو یکساں تعلیمی مواقع ملنے سے معاشرے پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں،جو ایک ہجوم کو قوم میں بدلتی ہے۔یکساں تعلیم کی بدولت یکساں مواقع ملتے ہیں،یکساں مواقع قوم کی تقسیم کو روکتی ہے۔یکساں تعلیمی نظام کی بدولت طبقاتی،لسانی،مذہبی تقسیم ایک حدتک کم ہو جاتی ہے۔یکساں تعلیمی نظام معاشرے کو ایسے فرد فراہم کرتی ہے،جو بیمار معاشرے کو صحت مند معاشرے میں بدلتا ہے۔گویا ہمارے بہت سارے مسائل کا حل یکساں تعلیمی نصاب اور تعلیم کو عام کرنے میں پوشیدہ ہے۔