پشاور سانحہ کے بعدانتہاء پسندوں اور دہشتگردوں کیخلاف کارروائیاں تیز کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں اور مسلح افواج کی طویل مشاورت کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا جس میں ایک جامع حکمت عملی طے کی گئی اور تمام صوبوں کو اس پرعملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایات دی گئیں ‘ ایکشن پلان کاایکشن تو ہر صوبے میں نظر آیا غیر ملکی باشندوں سمیت جرائم پیشہ افراد کیخلاف بھی سختی کی گئی اور انتہاء پسندوں کے ٹھکانوں پر بھی کارروائی کی گئی تاہم اس کے سب باوجود ملک میں تین سے چار بڑے دہشت گردی کے حملے ہوئے ہیں‘ گزشتہ دنوں لاہور میں خودکش حملہ آور نے پولیس کو ہدف بنایا ‘ پولیس لائن میں ہونے والے اس خود کش حملے میں پانچ افراد جاں بحق اور 25زخمی ہوئے ‘ ہدف پولیس تھی تاہم حملہ آور نے باہر ہی خود کو دھماکے سے اڑا دیا ۔ان سطور کے لکھے جانے کے وقت راولپنڈی میں ایک اور خود کش حملہ کیا گیا جس میں جانی نقصان کی بھی اطلاعات موصول ہیں ‘ اسی طرح اس سے قبل بھی دھماکے ہوئے یہ چوتھا حملہ ہے جس میں حملہ آور اپنی کارروائیوں میں کامیاب ہوئے ہیں‘ سرکاری حکام اسے نیشنل ایکشن پلان کا ردعمل قرار دے رہے ہیں تاہم اسطرح کے بیانات سے عوام کو تسلی نہیں دی جاسکتی ۔اس طرح کے حملوں سے ملک میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہورہا ہے اور عوام مزید موثر اور جامع حکمت عملی ترتیب دینے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کا مطالبہ کررہے ہیں۔یہ کہنا کہ حملہ آور اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے محض خود کو تسلی دینے کے مترادف ہے کیونکہ حملے کا ہونا ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اگر ناکامی نہیں تو کامیابی بھی نہیں ہے ‘ امن قائم کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے جس کا انہوں نے حلف بھی اٹھایا ہے اسلئے انہیں حملے ہونے کے بعد حملہ آور کے ماسٹر مائینڈ تک پہنچنے سمیت حملے کے ہونے کا بھی جائزہ لینا چاہیے ‘ بدقسمتی سے پاکستان میں ذمہ داری نہ لینے کا رواج ہے ‘ اولین ذمہ داری وزیراعظم کی بنتی ہے اسکے بعد نچلے افسران کی لیکن یہاں سب سے پہلے علاقے کے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو غفلت کا مرتکب ٹھہرایا جاتا ہے ‘ پاکستان کے حالات انتہائی سنگین ہیں اور معمولی سی بھی غلطی کی بھی گنجائش نہیں ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے کونے کونے میں سنجیدگی سے سیکورٹی کے انتظامات کیے جائیں اور ہر عام و خاص شہری کی حفاظت یقینی بنائی جائے ‘ دور جدید میں کیمرے اور دیگر آلات کا استعمال کرکے ان واقعات کو باآسانی روکنا کوئی مشکل کام نہیں ‘ حکومت کی جانب سے اربوں روپے خرچ کیئے جاتے ہیں تاہم سیکورٹی کیلئے جدید آلات استعمال کرنے بارے کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ کبھی فنڈز کا مسئلہ تو کبھی افرادی قوت کا مسئلہ سامنے لایا جاتا ہے ۔اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو امن کاقیام بیانات کی حد تک محدود رہے گا اور مستقبل میں بھی سیاسی رہنما صرف مذمتی بیانات جاری کرتے رہیں گے اور حکومت اسے دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں کا ردعمل قرار دے گی جس میں حکومت کی کوئی نیک نامی نہیں کیونکہ عوام باشعور ہیں اور نتائج پر یقین رکھتے ہیں ۔