بلوچستان کے دکی کول فیلڈ میں جمعرات کے روز ایک پرائیویٹ کوئلے کی کان میں ایک اور المناک حادثہ پیش آیا جس کے باعث آٹھ کانکن جاں بحق ہوئے۔اپنے حفاظتی تدابیر سے نابلدکانکن حسب معمول کان میں کام کررہے تھے کہ اچانک مینتن گیس کی مقدار زیادہ ہونے سے دھماکہ ہوگیا کان میں کوئلے کے کان کن کام کررہے تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا کوئلہ کی یہ کان مکمل طورپر دب گئی اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔لیویز کے مقامی افسر حبیب الرحمن کے مطابق یہ حادثہ کوئلے مالک اورمائنز انسپکٹر کی جانب سے غفلت برتنے کے باعث پیش آیا‘ واقعہ کے فورا بعد دیگر پندرہ کان کن امداد کے لئے گئے جو ریسکو آپریشن سے بالکل ہی ناواقف تھے جس کے باعث ایک ہی کان میں دوسرا واقعہ پیش آیا ایک کان کن اپنے ساتھیوں کی جان بچانے کی کوشش میں جاں بحق جبکہ چودہ دیگر زخمی ہوگئے‘ زہریلی گیس میں ریسکو آپریشن کوئی باشعور شخص نہیں کرسکتاتاہم بچارے کان کن کرتے بھی تو کیا کیونکہ وہاں ریسکیو سینٹر فعال نہیں تھا اور انکی مدد کے لئے حکومت اور متعلقہ انتظامیہ کی جانب سے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے تھے متعلقہ افسران کی غفلت کو مد نظر رکھتے ہوئے کان کن اپنے پیاروں کی جان بچانے کیلئے خود ہی میدان میں کود پڑے جو ایک اور حادثے کا باعث بنی ‘ دکی کول فیلڈمیں تین سو سے زائدکوئلے کے کان ہیں اسکے باوجود ریسکو سینٹرفعال نہیں ہے جو بلوچستان کے محکمہ مائنز اینڈ منرل کی نہ صرف مجرمانہ غفلت بلکہ لاپروائی کا منہ بولتا ثبوت ہے ‘ متعلقہ محکمہ کے افسران اس قدر بے بس اور بے حس ہوگئے ہیں کہ کوئی اعلی افسر متاثرہ کان تک نہیں پہنچا نہ ہی ریسکیو آپریشن کا جائزہ لیا جس سے انکی انسانی جانوں سے دوستی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ تمام تر ہلاک شدگان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواء سے ہے ‘ نعشیں پانچ سو فٹ نیچے کان میں پھنس گئی ہیں جنہیں نکالنے کیلئے رات گئے تک ریسکیو آپریشن جارہا۔ بلوچستان میں پانچ ہزار سے زائد کان ہیں جس میں حفاظتی تدابیر اپنانے کا کوئی رواج نہیں ہے ہر مائن فیلڈ میں چیف مائنز انسپکٹر مقرر کیا گیا ہے تاہم مائنز انسپکٹر وہاں جانے کی زحمت نہیں کرتے ہیں ‘ مائنز اینڈ منرل ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر نے روزنامہ آزادی کو بتایا کہ یہ تمام مائنز آفسر ہر ہفتے کول مائنز کا دورہ کرتے ہیں تاہم مائن کے اندر جاکر جائزہ نہیں لیتے انہوں نے سنگین الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ ہفتہ وار بھتہ جمع کرنے کی غرض سے جاتے ہیں انہیں قیمتی انسانی جانوں سے کوئی سروکار نہیں ہے ‘ یہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے کہ حکمرانوں نے اسطرح کے مسائل پر توجہ دینے ہی چھوڑ دیا ہے ‘ عوامی نمائندے یا افسر شاہی اپنی جیبیں بھرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اسطرح کے الزامات تو آئے دن لگائے جاتے ہیں اور یہ حکمران اور آفسران تردید کرتے ہوئے یہ کہتے نہیں تکتے کہ یہ محض الزامات ہیں کیونکہ حقیقت کاان سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے ‘ ان کے یہ بیانات اسلئے انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ بااثر افراد انکی پشت پنائی کرتے ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ وہ اسطرح کی غفلت اور کرپشن کا پردہ چاک کریں کسی کے پاس ثبوت رہتا ہے اور نہ ہی بلوچستان کے پاس باصلاحیت اور اچھا میڈیا ہے جو اسطرح کے مسائل کی تفصیل سے نہ صرف نشاندہی کریں بلکہ ان کو حل کرنے میں ناکام ہونیوالوں کو ثبوت کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنائیں۔ یقیناًیہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور غریب عوام کا روزگار اس سے وابسطہ ہے اس لئے معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسطرح کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور کان میں المناک واقعہ رونما ہونے کے بعد ذمہ داران کے تعین میں نہ صرف مدد کریں بلکہ اصطلاح کیلئے بھی کردارادا کریں۔دکی کی کان میں پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل کوئٹہ کے مضافات میں واقع سورنیج میں اس زیادہ المناک واقعہ رونما ہوچکا ہے جس میں 43کانکن لقمہ اجل بن گئے آج تک تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آئی نہ ہی کسی افسر اور حکمران نے ہمت کرکے عوام کو بتایا کہ کس طرح یہ واقعہ رونما ہوابس یہ کہہ دیا گیا کہ مائنز انسپکٹر نے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ کان میں مینتن گیس کی مقدار زیادہ ہے اور یہ المناک حادثہ کا سبب بن سکتی ہے ‘ آخر سورنیج کے اس کوئلے کے کان کو سیل کیونکر نہیں کیا گیا اور یہ بیان واقعہ کے بعد کیونکر دیاگیا‘ اس ملک و صوبے میں کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی قومی میڈیا کے صفحات اور چینلز میں اسکی گنجائش موجود ہے۔ہم اکیسویں صدی میں زندگی بسر کررہے ہیں اور آگے بڑھنے کیلئے حکمران سمیت ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ایک بہتر مستقبل اور معاشرے کی تشکیل مکمل ہوسکے حکومت وقت اور متعلقہ ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان واقعات کی تحقیقات کرکے نہ صرف غفلت برتنے پر اعلی افسران کو بھی برطرف کرے بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کریں ۔