بلوچستان کی قومی شاہراہوں پرموت ناچ رہی ہے۔ ہر سال سینکڑوں افراد جان سے چلے جاتے ہیں۔ ہائی ویز دو رویہ نہ ہونے، تیز رفتاری اور سڑکوں کی خستہ حالت کی وجہ سے یہ خونی شاہراہیں بن گئی ہیں۔ حادثات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ 70 فیصد اموات گاڑیوں کے آپس میں ٹکرانے سے واقع ہوتی ہیں جس کی روک تھام سے متعلق کوئی بھی میکانزم موجود نہیں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہرسال بلوچستان کی مرکزی شاہراہوں پر پانچ ہزار سے زائد حادثات ہوتے ہیں۔ ان میں ایک ہزار کے قریب افراد جاں بحق جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوجاتے ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کے جنازے اٹھاتے رہتے ہیں۔ آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ان کی تدفین کی جاتی ہے۔ ان حادثات پرقابوپانے کے لئے حکومتی اداروں کے پاس کوئی ٹھوس پالیسی نہیں ہے۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی کی نسبت شاہراہوں پر ہونے والے حادثا ت میں لوگوں کی اموات زیادہ ہوتی ہیں جو ایک انتہائی تشویشناک بات ہے۔
سیاسی و سماجی حلقوں نے بلوچستان کی شاہراہوں پر خونی حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان واقعات کی ذمہ دار نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) ہے۔ ان کا کہناہے کہ آئے دن ہائی ویز پر حادثات پیش آتے ہیں۔ بلوچستان کی تمام شاہراہیں نہ صرف سنگل ٹریک ہیں، بلکہ ان شاہراہوں کی تعمیرومرمت پر این ایچ اے کسی قسم کی کوئی توجہ نہیں دے رہی ،ایک دفعہ سڑک بن جانے کے بعد این ایچ اے انہیں لاوارث چھوڑ دیتی ہے۔ شاہراہوں پر جگہ جگہ گڑھے پڑے ہیں۔سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیںجو حادثات کاباعث بنتی ہیں، این ایچ اے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت کامرتکب ہورہی ہے۔مسافروں کا کہنا ہے کہ ڈرائیوروں کی غلطیوں کو بھی اس سلسلے میں نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ ٹرانسپورٹرز بھی لاپرواہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ٹرانسپورٹر حضرات تیز رفتاری کو بہتر سروس کی علامت سمجھتے ہیں۔ تیز رفتاری کی وجہ سے کوچز بے قابو ہوجاتی ہیں اور معصوم مسافر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس سلسلے میں موٹر وے پولیس تیز رفتاری کو کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ بڑی تعداد میں ڈرائیورز بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتے ہیں۔ سفر کرنے والوں کی رہنمائی کے لیے سائن بورڈز بھی نہیں ہیں۔ حالیہ برسوں میں سڑکوں پر ٹریفک کافی بڑھی ہے لیکن سڑکیں 30 سال پرانی حالت میں ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی نسبت سب زیادہ بلوچستان میں 4400 کلومیٹر پر محیط ہائی ویز کی لمبائی ہے جس میں موٹروے پولیس کے پاس ٹوٹل لمبائی کا 513 کلو میٹر کوئٹہ سے قلات، اوتھل سے کراچی اور گودار سے پسنی تک کا علاقہ ہے۔ جو کل ہائی وے کا صرف 11 فیصد بنتا ہے۔
سماجی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں 70 فیصد ڈرائیورز کے پاس لائسنس نہیں، گاڑی کی فٹنس چیکنگ نہیں ہوتی۔ ڈرائیورز کو معلوم نہیں ہوتا کہ ٹائر کی معیاد کیا ہے اور کیا ٹائر اس قابل ہے کہ اسے زیادہ رفتار سے چلایا جائے جب کہ بلوچستان میں سڑکوں کی حالت بھی کافی خستہ حال ہے۔ مسافر بسوں کے ڈرائیورز 24 سے 36 گھنٹے تک گاڑی چلاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جسمانی اور اعصابی تکالیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ زیادہ تر حادثات نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں کیونکہ ڈرائیورز کی نیند پوری نہیں ہوتی، وہ غنودگی کی حالت میں گاڑیاں چلارہے ہوتے ہیں۔ موٹروے کی حدود میں بھی مسافر بسیں مناسب یا مقررہ رفتار کی خلاف ورزیاں کرتی رہتی ہیں۔ ان شاہراہوں پر موٹروے کی رینج مقرر کرنے پر کوئی عملدرآمدہوتا نظرنہیں آتا جس کی وجہ سے ڈرائیورز تیز رفتاری کرتے ہیں اور اس طرح حادثات رونما ہوتے ہیں۔
متعلقہ حکام کو چاہئے کہ وہ ٹرانسپورٹر کمپنیوں کے ساتھ مل کر ایک میکانزم ترتیب دیںتاکہ اس میکانزم کے مطابق تیز رفتاری سمیت دیگر امور کا حل نکالا جاسکے اس سلسلے میں محکمہ ٹرانسپورٹ ڈرائیوروں کو تربیت دینے کے لیے بلوچستان میں اکیڈمی کا قیام عمل میں لائے۔موٹروے پولیس بس ڈرائیورز کو مفت تربیت فراہم کرے۔ تربیت حاصل کرنے سے کسی حد تک حادثات پر قابو پایاجاسکتاہے۔ قومی شاہراہوں پر چلنے والی تمام کوچز میں ٹریکر نصب کئے جائیں تاکہ ان کی رفتار کاتعین کیاجاسکے۔حکومت بلوچستان کو چاہئے کہ وہ ٹریفک حادثات پر قابو پانے کیلئے مسافروں کے لیے انشورنس اسکیم متعارف کرائے۔ تمام شاہراہوں پر ٹراما سینٹرز قائم کئے جائیں۔تمام شاہراہوں کو دو رویہ کرنے کے منصوبے کوبھی مکمل کیا جائے تاکہ حادثات میں کمی واقع ہوسکے۔سیاسی و سماجی حلقوں کے مطابق یہ اموات حکومتی ناقص انتظامات کی وجہ سے ہورہی ہیں۔حکومت براہِ راست ان اموات کی ذمہ دار ہے۔ بلوچستان کے مرکزی شاہراہوں پر موت کے رقص کے خلاف بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی نامی ایک سماجی تنظیم سراپا احتجاج ہے۔ اس سلسلے میں سوسائٹی کے عہدیداروں نے کراچی ٹو کوئٹہ پیدل لانگ مارچ بھی کیا۔ جب وہ وڈھ تک پہنچے تو کورونا کی وجہ سے انہیں پیدل مارچ کو موخرکرنا پڑا۔ اس دوران این ایچ اے حکام کی جانب سے ان کے ساتھ رابطہ کیاگیا کہ مارچ ختم کیا جائے ان کے مطالبات پر عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔ مگر مارچ ختم کرنے کے بعد ابھی تک کسی بھی شاہراہ پر کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔
سیاسی حلقوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے کھربوں کے وسائل اور دولت لے جانے کے بعد بھی سفر کیلئے محفوظ سڑکیں نہیں۔ بلوچستان میں روزانہ حادثات میں آباد گھر اجڑنے کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ کسی کے کندھے پر باپ کی لاش تو کسی کے کندھے پر بہن کی لاش ہے۔ لاشوں کی وجہ سے قبرستانوں کی قطاریں لگیں ہیں۔ وفاقی حکومت بلوچستان میں شاہراہیں تعمیر کرنے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں آخر کب تک بلوچستان کی عوام اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ٹریفک حاثات میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہےں جوکہ المیہ سے کم نہیں۔ حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرے تاکہ انسانی جانوں کی ضیاع پر قابو پاےا جاسکے۔لےکن بدقسمتی سے اس سلسلے میں حکمرانوں کے پاس کوئی جامع حکمت عملی نہیں ہے کیونکہ ان کے سامنے انسانی جانوں کی کوئی قدر نہیں ہے۔
بلوچستان کی خونی شاہراہیں
وقتِ اشاعت : March 7 – 2021