” مغربی افریقی ملک اپر وولٹا کی برکینا فاسو (جو 1983 کے اگست انقلاب کے نام سے جانا جاتا ہے) کی انقلابی سنکارا نے اپنے ملک کے لیے عورتوں کے شانہ بشانہ شدید مزاحمت کرتے ہوئے افریقی سیاسی رہنماؤں کو بھی تبدیلی لانے کے لیے متحد کرنے اور انقلاب میں عورتوں کو ساتھ ملاتے ہوئے افریقہ میں انصاف اور رواداری کے ساتھ عورتوں کے حقوق کی بنیاد رکھی۔ آج جس کے اثرات سے افریقہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو رہا ہے” دنیا کے دیگر اقوام کی طرح بلوچ قوم کے لیے بھی ضروری ہے کہ خواتین کو سپیس دیکر انصاف و برابری کے ساتھ اعتماد کرکے ان کے شانہ بشانہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے جدو جہد کریں۔
بلوچ خواتین کی حوصلہ افزائی کے لییانہیں موقع فراہم کیا جائے تاکہ بلوچ معاشرے کی نصف آبادی سے زیادہ عورتوں کے کردار کومثبت طور پر استعمال کیا جاسکے، کامیابی ہمیں اس وقت نصیب ہو گی جب ہم بلوچ خواتین کو سیاسی مزاحمت میں حصہ دار بنائیں اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی مثال دینے کی بجائے خود مثال بن جائیں۔ویسے اگر بلوچ قوم کی تاریخ دیکھیں تو اس میں بانڑی بلوچ، گل بی بی بلوچ، بی بی مہتاب بلوچ، کریمہ بلوچ ، لمہ ڈاڈی بلوچ اور دوسرے بلوچ خواتین کا کردار ہمارے لئے باعث فخر ہے کہ بلوچ قوم بلوچ خواتین کے شانہ بشانہ مزاحمت کا ہنر رکھتی ہے۔
مگر اس کے لیے ہمیں اور بھی کوششیں کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہر بلوچ گھر کے مرد و زن شانہ بشانہ انقلاب کے لیے اٹھ کھڑے ہو جائیں اور ایک ساتھ مزاحمت کی علامت بن جائیں تو وہ دن دور نہیں کہجب کامیابی بلوچ قوم کے قدم چومے گی۔ سنکارا کی سیاست اور سیاسی قیادت نے اس خیال کو چیلنج کیا کہ صرف مرد ہی اس سرزمین کے مالک ہیں کیونکہ سنکارا کا قول ہے کہ آدھے آسمان کے مالک عورت ہیں، برکینا فاسو کے صدر کی حیثیت سے چار سالوں کے دوران ، انہوں نے لوگوں کے ساتھ انسانی ، معاشرتی ، ماحولیاتی اور عورتوں کے حقوق سے آگاہی اور قبضہ گیریت کے خلاف نجات بخش سیاست کی تعمیر کے لئے کام کیا۔
عوامی مراکز انقلاب براعظم میں نئے معاشرتی ترقی کی طرف منتقل ہونے کا ایک اہم پیش رفت تھا ہمیں برکینی انقلاب سے بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہےتاریخی طور پر دیکھا جائے بلوچ معاشرہ ایک سیکولر معاشرہ رہا ہے جہاں عورتوں کے شانہ بشانہ ہر کام کو انجام دیا جاتا ہے چاہے وہ گھریلو میدان ہو یا اپنے دفاع کا جنگ، بلوچ قوم کے عورتوں نے بلوچ مردوں کے شانہ بشانہ مزاحمت کرتے ہوئے سرزمین کا قرض چکانے کی کوشش کی ہے اور ہمیں امید رکھنا چاہیے کہ مستقبل میں بھی بلوچ بھائی اپنے بلوچ ماں بہنوں کے ساتھ ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔
کیمرون کے اینٹیولوجینئل مورخ مونگو بیٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے سنکارا نے کہا ، کہ ہم مرد و خواتین کی مساوات کے لئے لڑ رہے ہیں۔ کیونکہ سرزمین ماں کی حیثیت رکھتی ہے اور ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دیکھنے میں مرد عورت پر حکمرانی کرتی ہے مگر نفسیاتی طور پر عورت کا مقام مرد سے اعلیٰ ہے بلکہ فطری طور پر قوانین بننے سے پہلے خواتین کو مردوں کا مساوی بناتے ہیں ۔خواتین کی آزادی سے ان کی تعلیم اور ان کی معاشی طاقت کے حصول کی ضرورت ہے۔ اس طرح ، مردوں کے ساتھ ہر سطح پر مساویانہ جدوجہد کرنے کی مشقت ، ایک ہی جیسی ذمہ داریوں اور ایک جیسے حقوق اور ذمہ داریوں کا حامل ہونا۔
انقلاب سے پہلے انقلاب کی نشانی ہے۔سنکارا اوردنیا کے دیگر خواتین کی مثال کو لے کر دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ مرد اور خواتین نے ایک ساتھ مل کر اس دنیا کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اگر خواتین کو گھر کی چاردیواری سے باہر اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ سماج بانجھ ہی رہے گا کیونکہ بچوں کی تربیت کا دارومدار خواتین پر ہوتا ہے اگر خواتین باعلم باشعور ہوں تو نئی پیڑی باشعور و باعلم ہو گی اور اپنے حقوق و معاشرے کی ترقی میں منصفانہ انداز میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
بلوچ معاشرے کی تاریخی روایات کو لیکر جدید دنیا کے ساتھ ہم قدم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بلوچ سیاسی پارٹیاں اس حوالے سے اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی کوشش کریں تاکہ بلوچ معاشرہ مرد و زن ایک ساتھ بلوچ قوم کی ترقی وکامیابی میں اپنا یکساں کردار ادا کریں تب یہ امید کی جاسکے گی کہ بلوچ قوم اپنے منزل مقصود کو پانے میں کامیاب ہوگی۔