|

وقتِ اشاعت :   March 12 – 2021

سورج ابھی ابھی غروب ہوچکا ہے،رات کی تاریکی دھیرے دھیرے سرمئی روشنی کو لپیٹ رہی ہے ،زرغون روڈ کی اسٹریٹ لائٹس کی مدہم روشنی کو خراٹے بھرتی ہوئی ایک جاپانی ویگو گاڑی چیرتی ہوئی ایک سرکاری بنگلے کے اندر داخل ہوتی ہے ،گاڑی سے درمیانہ قد اور درمیانی عمر کا گورا چٹا گھنگریالے بالوں والا ایک شخص تیزی سے نکل کر گھر کے اندورنی دروازے سے ہوتا ہوا ایک کمرے میں داخل ہوتا ہے ،یہ ایک سرکاری گھر ہے جس میں بلوچستان کا ایک سابق وزیر اعلیٰ عارضی رہائش پذیر ہے ،میزبان کو پہلے سے ہی مہمان کی آمد کا علم ہے ایسا لگ رہا ہے کہ میزبان اپنے مہمان کا منتظر ہے۔

دونوں بڑی گرم جوشی سے ملتے ہیں ،بلوچی حال حوال ہوتا ہے اس سے پہلے کہ مہمان میزبان سے آنے کی وجہ پوچھے میزبان خود ہی گویا ہوتے ہیں ،میں بلوچستان کا مستقبل کا ہونے والا وزیر اعلیٰ ہوں ،تمام ‘‘معاملات’’ طے ہوچکے ہیں چونکہ آپ کی جماعت بھی الیکشن کا حصہ بننے جارہی ہے دوچار یا اس سے زیادہ سیٹیں آپ کی جماعت لے سکتی ہے ،مجھے آپ کی مدد درکار ہوگی ،آپ نے میری حمایت کرنی ہوگی ، میزبان جوں جوں بات آگے بڑھاتی ہے میزبان ہکا بھکا مہمان کا منہ تھکتا رہ جاتا ہے ۔

یہ ایک مختصر سی ملاقات کی تین سال پرانی کہانی ہے ،یہ واقعہ 2018 کے عام انتخابات سے تین یا چار مہینہ پہلے کا ہے ،ایک تجربہ کار سیاستداں مہمان کی پر اعتماد پیشن گوئی اور باتیں سن کر ششدرہ ہوئے بغیر رہ نہیں پاتا۔۔۔۔۔25جولائی 2018 کے عام انتخابات میں یہ شخص اپنے حلقے انتخاب میں پہلی بار صوبائی نشست پر کامیاب تو ہوجاتے ہیں لیکن انتخابات کے بعد اسکا دیکھا گیا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتا،اس شخص کو میں قوم پرست جماعت کا چوہدری نثار اور قصہ گو دانشور کہتا ہوں۔
قوم پرست پارٹی کا یہ چوہدری نثار 15 سال بعد ایک بار پھر اپنی جماعت کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا ،یہ شخص اپنی پارٹی کے اندر اعتماد 2006 کے بعد سے کھو چکا ہے،انکی جماعت میں موجودگی برائے نام رہ گئی ہے انہیں کسی اہم معاملے میںکبھی پوچھا نہیں جاتا ،اپنا اعتماد بحال کرنے کیلئے انہوں کافی سارے جتن کیئے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے ،اپنی تئیں سمجھ گئے ہیں کہ جماعت میں انکا وزن روئی برابر ہے ،روئی کبھی پتھر نہیں بن سکتا اس لیئے انہوں نے نئے ممکنہ آپشن پر غورکرنا شروع کردیا ہے ،انکا حدف ایک نئی پارٹی کی تلاش ہے سو انہوں نے نئی جماعت تلاش لی ہے۔

راوی کہتا ہے کہ اسلام آباد میں سینٹ کے حالیہ اپ سیٹ کے بعد قصہ گو دانشور نے پیپلز پارٹی کے ساتھ پینگیں بڑھانی شروع کردی ہیں ، چونکہ پیپلز پارٹی کو بلوچستان میں الیکٹیبلز افرادی قوت کی ضرورت ہے ،پیپلز پارٹی کی قیادت کو قصہ گو دانشور نے باور کرایا ہے کہ وہ اپنی نشست ایک بار پھر حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔یقین دہانی کے بعد پیپلز پارٹی نے انہیں ہری جھنڈی دکھا دی ہے،یہ شخص ایک بار پھر آنے والے عام انتخابات میں خود کو ایوان وزیر اعلیٰ کے روپ میں دیکھنے کی آس لیئے بیٹھا ہے ،ہوسکتا ہے زرغون روڈ کا واقعہ دوبارہ دہرایا جائے۔

گزشتہ کالم ‘‘ گھر کا چور’’ پر بہت سارے بہی خواہوں نے فیڈ بیک دی ہے اور اس بات پر اسرار کرتے رہے کہ مجھے اپنے کالم میں ساجد ترین کو ووٹ نہ دینے والے اراکین کو آشکار کرنا چاہئے تھا ،تاکہ پڑھنے والے کسی مغالطے یا ابہام کا شکار نہ ہوتے ، میری عرض یہ ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے پہلے ہی سے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رپورٹ جتنی ممکن ہوسکے پبلک کردے تاکہ یہ ابہام بھی دور ہوسکے ۔کسی قوم پرست جماعت کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف ہونے والی تحریک عدم اعتماد کے دوران نیشنل پارٹی کے دو اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی نے اپنی جماعتی پالیسی سے انحراف کیا تھا ،اس وقت دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے اراکین کو پبلک کرکے ان سے لاتعلقی کردی تھی ،بلوچستان نیشنل پارٹی کیلئے چنداں مشکل نہیں وہ اپنی جماعت کے ‘‘چمک ‘‘کے شکار لوگوں کی نشاندہی کرے، ایسا کرنے سے بی این پی اپنی ساکھ متاثر ہونے سے بچا سکتی ہے اور ممکن ہے بی این پی کے اندر ایسی کوئی ‘‘گڑ بڑ ‘‘ نہ ہو بلکہ کہیں اتحادیوں نے کوئی ‘‘ شرارت ‘‘ کی ہو تب بھی یہ بی این پی کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام معاملات کو آشکار کرے لیکن غالب گماں یہی ہے ‘‘ گڑ بڑ’’ بی این پی کے اندر سے ہوئی ہے۔