|

وقتِ اشاعت :   March 16 – 2021

گزشتہ کچھ عرصے سے چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے حوالے سے اس قدر اعلانات، دعوے، بیانات، تجزیے اور اقدامات سامنے آ چکے ہیں کہ سی پیک کے حوالے سے چائنا نہ سہی پاکستان کے ہر صوبے کے لوگوں کے دل و دماغ امیدوں ، توقعات اور خدشات سے لبریز ہوچْکے ہیں۔ اور اگر یہ بات گوادر میں بیٹھ کر کی جائے تو یہاں امید اور خدشات کئی گنّازیادہ بڑھ چکے ہیںکیونکہ گوادر ہی وہ مقام ہے جو اقتصادی راہداری کا ایک طرف سے نقطہ آغاز اور دوسری طرف سے نقطہ اختتام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چراغ تلے اندھیرا ہے۔ گوادر جس کے تینوں اطراف نیلگوں سمندرہے لیکن گوادر والے آج بھی پانی کے ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ گوادر کے شہریوں کو 20/25 دن کے بعد ایک گھنٹہ آدھی انچ کے پائپ سے مضرِ صحت پانی دیا جاتاہے۔ گوادر کی قدیم آبادی کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہے ۔

آج بھی گوادر میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں جہاں کسی مریض کا درست علاج ہو، گوادر میں سیوریج کا کوئی نظام نہیں، اربوں ڈالر کھانے والی شہر میں کوئی صنعت نہیں جہاں کم از کم 10 افراد برسرِ روزگارہوں،ہاں سی پیک کے ساتھ گوادر اور گوادر کے ساتھ سی پیک کا نام اس قدر لیا جا چکا ہے کہ اب دونوں کو الگ کرنا مشکل و نا ممکن محسوس ہوتا ہے۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ دونوں الگ حقیقتیں ہیں اور دونوں کی حیثیت، ضروریات اور جذیات کا الگ الگ جائزہ لیکر اور جدگانہ مقام دے کر ہی ان کے ساتھ انصاف کیا جا سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کوئی بھی میگا منصوبے کے کچھ نہ نقصانات ضرورہونگے مثال کے طور پر گوادر میں سی پیک منصوبے کی آمد سے قبل چوری، ڈاکہ، کلاشن کوف کلچر، قتل، تعصْب، اور بْہت سارے مسائل جو آج ہیں وہ نہ تھے، خوف و ڈر کا ماحول نہ تھا، ماہی گیر اور دوسرے کاروباری حضرات پریشان نہ تھے، جہاں موجودہ ڈیپ سی پورٹ بنائی گئی ہے ۔

یہ جگہ ماہی گیروں کی شکارگاہ اور مچھلیوں کے افزائش نسل کی جگہ تھی جو گوادر کے ماہی گیروں نے بنا کوئی چون چرا ( مزاحمت و معاوضہ) اس اْمید کے ساتھ حکومت کے حوالے کردیا کہ آنے والی ترقی و سی پیک سے اْنکے اور اْنکی آنے والی نسلوں کی تقدیر بدل جائیگی لیکن اِسکے بدلے میں گوادر والوں کو تشنگی، بیروزگاری ،اذیت اور پریشانیاں ملی ہیں ۔ میں ایک پروگرام میں شریک تھا جوکہ وفاق اور حکومتِ بلوچستان کے محکمہ پلاننگ و ڈیولپمنٹ کے زیر اہتمام بعنوان “سی پیک گوادر، بلوچستان اور پاکستان ” رکھا گیا تھا جس میں گوادر سمیت علاقائی مسائل، انسانی بنیادی حقوق سمت سی پیک کی اہمیت اور فوائد کے بارے میں عوامی منتخب نمائندوں، معززین شہر اور صحافیوں نے شرکت کرکے سیر حاصل بحث کی، اسی پروگرام میں چائینہ اورسیز ہولڈنگ کمپنی کی ایک اہم شخصیت نے گوادر کے مسائل پانی، بجلی، شہر کی سڑکیں، سیوریج، تعلیم، صحت اور دیگر معاملات کے حوالے سے کہا کہ ہم ( یعنی چائنیز) ان تمام مسائل پر زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں مکمل قابو پالینگے لیکن ( اْن کے بقول)ہمیں ان مسائل کے خاتمہ کیلئے نہیں چھوڑا جارھا۔ کون ہیں وہ جو گوادر کے مسائل کا حل نہیں چاھتے؟ میرے خیال میں سی پیک ایک موقعے کا نام ہے۔

جوکہ بین الاقوامی سطح پر یہ موقع نائن الیون (9/11) کے بعد عالمی حالات کی وجہ سے پاکستان کی اپنے پرانے حلیف امریکہ سے دوری اور چائنا کی ابھرتی ہوئی معاشی حیثیت کی وجہ سے پیداہوا۔ علاقائی سطح پر یہ موقع پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوتی ہوئی تنہائی اور اس کی مخصوص جیو اسٹریجک حالات کی وجہ سے ممکن ہوا اور ملکی سطح پر پاکستان کا جغرافیہ اور خاص طور پر دو ‘‘گ‘‘ یعنی شمال میں گلگت اور جنوب میں گوادر اس کے لئے اہم ثابت ہوئے۔ سی پیک کے ذریعے چائنا کو اپنی معیشت کو مزید مستحکم کرنے، اپنے کم ترقی یافتہ مغربی خطے کو صنعتی طور پر آگے لانے اور اپنی مصنوعات کی برآمد اور تیل و گیس کی درآمد کو زیادہ آسان اور موثر بنانے کا موقع مل رہا ہے اس کے لئے مشرق وسطیٰ اور افریقہ سمیت یورپ تک رسائی کے نئے امکانات اور کم خرچ کے ذریعے ممکن ہو رہے ہیں۔ اس طرح پاکستان کے لئے بھی سی پیک نئے امکانات کی ایک قوس قذح لے کر آئی ہے۔

سب سے پہلے یہ موجودہ حکومت کے لئے اگلا الیکشن محفوظ کرنے کی ضمانت ثابت ہوئی ہے کیونکہ سی پیک کے نام پر آنے والی گرانٹ یا قرضہ سے ملک کے سب سے بڑا مسئلہ یعنی توانائی ( بجلی) کے مسئلے کا حل 2023 تک ( مستقل بنیادوں پر نہ سہی مگر اگلے الیکشن میں اپنی کارکردگی کا دعویٰ دکھانے کیلئے بے حد اہم ہوگا) ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔یہ سب مواقع پاکستان میں سی پیک کے بعد سامنے آئے ہیں۔بلوچستان اور خاص طور پر گوادر کے لئے بھی سی پیک بہت سارے مواقع اور امکانات سے بھرپور ہے لیکن حکومت اور حکومتی اداروں کی نیک نیتّی یہاں کے عوام کیلئے شرط ہے۔ یہاں بھی تجارت، سرمایہ کاری، کاروبار، ملازمت اور ترقی کے بے شمار مواقع موجود ہونگے مگر حکومت کی سرپرستی، تعلیمی، اور ٹیکنیکل اداروں کی موجودگی شرط اور سرکار کی ذمہ داری ہے جو آج تک گوادر میں ناپید ہیں ۔ بنیادی امر یہ ہے کہ ہم یعنی یہاں کے رہنے والے لوگ ان مواقع سے مستفید ہونے کے لئے کس قدر آمادہ ، تیار اور آزاد ہونگے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ترقی اور آگے بڑھنے کے لئے سب سے اہم اور بنیادی وسیلہ انسانی وسیلہ ہے۔ قدْرتی وسائل اس وقت تک مدد گار اور کار آمد ثابت نہیں ہوتے جب تک ان کو استعمال میں لانے کے لئے انسانی وسائل موجود نہ ہوں۔ بدقسمتی سے انسانی وسائل کی دستیابی اور ترقی کے لحاظ سے بلوچستان کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین صوبوں میں ہوتا ہے، اس لحاظ سے ہماری ترجیحات ایک صوبہ یا ایک قوم کی حیثیت سے غیر واضح ہیں۔ انسانی وسائل کی ترقی کا اہم ترین ذریعہ تعلیم و تربیت ہے تعلیم و تربیت کے شعبے میں بلوچستان کی جو حالت ہے وہ کسی بھی حوالے سے قابلِ تعریف اور تسلی بخش نہیں ہے۔سی پیک سے پیدا ہونے والے خدشات کے خاتمے ، مواقع سے فائدہ اٹھانے اور ظاہر و پوشیدہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومتی سطح پر بہتر منصوبہ بندی ، سیاسی سطح پر زیادہ سے زیادہ دور اندیشی اور قوت ارادی اور عوامی سطح پر اعتماد و یکجہتی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے لئے برداشت اور حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں کے لئے آنے والی نسل کی تیاری ایک قومی تحریک و جنبش کی متقاضی ہے جس کا احساس سب سے پہلے ہمارے قومی اکابرین اور سیاسی جماعتوں کے اندر پیدا ہونا ضروری ہے۔

اسی طرح نوجوان جو ہمارا مستقبل ہیں ان کا مستقبل بھی محض نعروں، اعلانات یا تقاریر سے محفوظ نہیں بنایا جا سکتا بلکہ اس کے لئے ان کو علم و ہنر سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے جس کی ذمہ داری ریاست کے ساتھ ساتھ خود نوجوانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہمیں یعنی نوجوانوں کو دوسروں پر ذمہ داری عائد کرنے کی عادت کو ترک اور اپنی تعلیمی قابلیت اور استعداد علم و ہنْر کوبڑھانے کی طرف توجہ دینا ہوگا۔ زندگی اور وقت ہر انسان اور قوم کے لئے مواقع لے کر آتی ہے مگر ان مواقعوں سے صرف وہی افراد یا اقوام فائدہ اٹھاتے ہیں جو ان کے لئے ہر طرح سے تیار ہوں۔