اگر موجودہ حکومت کے سیاسی ثمرات کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ سرکار پاکستان کے تاریخ کی واحد سرکار ہے، جو کسی بھی صورت وفاقی تو دور کی بات، “حکومت” ہی نہیں لگ رہی۔ وفاقی سرکار اب ایسا چوہدری، یا وڈیرا بن گئی ہے جو کسی بھی کسان کی فصل اترنے پر آکر کھڑا ہو جاتا ہے اور سارا غلہ پانی اپنے گھر اٹھا کر لے جاتا ہے۔ یوں تو سندھ کی تمام ہسپتالیں بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں، لیکن کراچی کا سول ہسپتال، جناح ہسپتال، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ، سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) اور سندھ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو وسکیولر ڈزیز (این آئی سی وی ڈی) انتہائی اہم ہسپتالوں میں شمار ہوتے ہیں، اور ان کے چرچے زبان زد عام ہیں، جب کسی بھی مریض کو کہیں بھی بچنے کی تسلی نہیں رہتی تب اس کو ان ہسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے، اور یہ پیپلز پارٹی کی کاوشوں اور مخیر حضرات کی صدقِ دل سے دی جانے والی امداد کا نتیجہ ہے کہ ان ہسپتالوں سے شاید ہی کوئی مایوس لوٹتا ہے، وگرنہ تو لوگ تندرست و توانا ہو کر یہاں سے اپنے گھر جاتے ہیں۔
وفاقی حکومت جہاں اسٹیل مل اور ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن جیسے اداروں سے لے کر جناح کنوینشن سینٹر سمیت اپنے تمام عوامی ادارے نجکاری کے نام پر نجی شعبے کو فروخت کر رہی ہے، وہاں سندھ کے اداروں کو کسی بھی قانون سازی کے بغیر، اپنی مرضی سے مسلط کردہ ایکٹ کے تحت اپنے نام کرنے کے لئے زور لگا رہی ہے، نہ صرف یہ بلکہ سندھ کے جزائر کے معاملے میں بھی یہی حال ہے۔ وفاقی حکومت کے کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں موجود نمائندے، ایک طرف سندھ دوستی اور عوام دوستی کے دعوے کر رہے ہیں، تو دوسری جانب سندھ کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں، یہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں، سندھ میں سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر قبضے بھی سندھ میں موجود وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے طور پر نامزد حلیم عادل شیخ اور ان کے ٹولے (گروپ) میں شامل لوگ ہی کر رہے ہیں، اور تو اور حلیم عادل شیخ نے پاکستان کی مشہور اور معروف گلوکارہ منی بیگم کے فارم ہاؤس پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔
لیکن کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ نہ ہی محکمہ ثقافت کو یہ جرات ہوئی ہے کہ وہ پاکستان کے ثقافتی امین منی بیگم کے فارم ہاؤس سے حلیم عادل شیخ کا قبضہ ختم کرواسکیں۔ یہ کہانی یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی، گڈاپ کے لگ بھگ تمام سرکاری زمینوں پر موصوف اور ان کے ساتھیوں کا قبضہ ہے، جس کو وہ “عوامی خدمت” کا نام دے رہے ہیں۔ ایسے لوگ سندھ دوستی اور سندھ کے نام پر سیاست کی آڑ میں سندھ کی تباہی کر رہے ہیں، وفاقی حکومت کی مراعات پر پلنے والے ان مذموم طریقوں سے سندھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کی ایک مثال محکمہ صحت کے ایک ملازم طارق شیخ کی ہے، جو بیک وقت محکمہ صحت اور این آئی سی وی ڈی کے ملازم رہے اور دونوں اداروں سے تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے رہے، مزید یہ کہ وہ این آئی سی وی ڈی جیسے خیراتی ہسپتال کو نقصان پہنچا کر دل کے بیماریوں کا علاج کرنے والے نجی ہسپتالوں کی مافیا کو نہ صرف فائدہ دینے کی کوشش کرتے رہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ان کی یہ بھی کوشش رہی کہ کسی بھی طریقے سے ادارے کو تباہی کے کنارے پر پہنچایا جائے تاکہ نجکاری کے نام پر اس ادارے کو بھی فروخت کیا جا سکے اور غریبوں کو مفت میں ملنے والے مہنگے علاج کی پوری قیمت وصول کی جا سکے۔ اس مقصد کے لئے میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوشنز ایکٹ نافذ کر دیا گیا، برسوں سے سندھ میں تمام سرکاری ہسپتالیں بڑے پیمانے پر غریب عوام کی خدمت میں مصروف ہیں لیکن وفاقی حکومت ایم ٹی آئی ایکٹ کے ذریعے ان ہسپتالوں میں “بہتر انتظامیہ” کے نام پر “اپنے لوگ” بٹھانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ان ہسپتالوں کو بھی اسٹیل ملز، ریلوے، پی آئی اے کی طرح ایسی صورتحال سے دوچار کیا جا ئے کہ کل ان ہسپتالوں کی نجکاری میں کسی بھی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ایم ٹی آئی ایکٹ اس سے پہلے ہی خیبر پختونخواہ میں ناکام ہو چکا ہے، لیکن اس کے باوجود سندھ کے ہسپتالوں کو اس ایکٹ کے تحت تحویل میں لینا ایک طرف آئین کی خلاف ورزی اور صوبائی خودمختاری والے اٹھارویں ترمیم کو براہ راست روندنے کے مترادف ہے۔ کنکرنٹ لسٹ کے تحت جو ادارے صوبوں کی ملکیت ہیں ان میں ہسپتالیں اور محکمہ صحت بھی شامل ہے۔
ایم ٹی آئی ایکٹ کے نفاذ کا مقصد سرکاری ہسپتالوں کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نجی ہسپتالوں کی طرح چلانا اور مریضوں کو دی جانے والی سہولتوں کے بدلے فیس کے نام پر کروڑوں روپوں کا منافع کمانا ہے، حالانکہ عام عوام ٹیکسز کی مد میں اپنی صحت کی رقم پیشگی وفاقی حکومت کو ادا کرتی ہے، صحت اور تعلیم وہ بنیادی سہولیات ہیں جن کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن موجودہ وفاقی حکومت ان سہولیات کی فراہمی سے اپنے آپ کو بری الذمہ کرنا چاہتی ہے، اس لئے ایم ٹی آئی جیسے عوام دشمن ایکٹ کو نافذ کر دیا گیا اور اس ایکٹ کے نام پر آئین کو روندتے ہوئے صوبائی اداروں میں مداخلت کی کوشش کی جارہی ہے۔وفاقی حکومت نے جب جناح ہسپتال، این آئی سی ایچ اور این آئی سی وی ڈی کو اپنی تحویل میں لینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا، تو اس نوٹیفکیشن میں اس بات کا بھی واضح اور برملا طور پر اظہار کیا تھا کہ اب ان ہسپتالوں کے معاملات”ایک نجی بورڈ ” کے ذریعے چلائے جائیں گے اور بورڈ علاج کے بدلے مریضوں سے اپنی “مرضی کے مطابق فیس” وصول کرنے کے لئے بااختیار ہوگا، دیگر الفاظ میں بورڈ جتنی چاہے فیس نافذ کر سکتا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ
یہ تو ہو گئی وفاقی حکومت کے سندھ کے خلاف آئین کے منافی سازشوں کی بات، اب دیکھتے ہیں زمینی بنیادوں پر اس حوالے سے کیا ہو رہا ہے؟ میڈیا میں ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے،خاص طور پر یہ کہ یہ تین ادارے سندھ حکومت کے زیر تحویل ہونے کی وجہ سے تباہ و برباد ہو رہے ہیں اور ایسی خبریں چلوانے میں ان اداروں میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں کا بھی اہم کردار ہے ، جن میں این آئی سی وی ڈی سے برطرف شدہ ملازم طارق شیخ بھی شامل ہیں، جو ترقیاں اور مراعات ملنے کے باوجود آج کل این آئی سی وی ڈی میں امکانی طور پر بننے والے بورڈ کی ممبرشپ حاصل کرنے کے لئے اندر ہی اندر وفاداریاں بدل کر حلیم عادل شیخ کی خوشامدکرنے میں مصروف ہیں اور حلیم عادل شیخ، علی زیدی، عمران اسماعیل اور ان کا “گٹھ جوڑ” میڈیا میں ایک ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ این آئی سی وی ڈی مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، اگر اس خیراتی ہسپتال کو وفاقی حکومت نے اپنی مرضی کے مطابق نہیں چلایا تو یہ بند ہو جائے گا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے این آئی سی وی ڈی سے برطرف شدہ طارق شیخ نے ایک منظم مہم چلائی ، انہوں نے اپنے حواریوں کے ذریعے نیب میں این آئی سی وی ڈی کے خلاف جھوٹی سچی درخواستیں جمع کروائیں، این آئی سی وی ڈی کا امیج خراب کرنے کی بھرپور کوشش کی،در اصل طارق شیخ بذات خود ادارے میں بیٹھ کر ادارے کے خلاف ہی سازشوں میں سرگرم رہے اور عملے کو بلیک میل کرکے اپنی مرضی کے مطابق چلاتے رہے، بعد ازاں معاملات سامنے آنے کے بعد ادارے کی جانب سے ان کو خارج کر دیا گیا اور اخبارات میں بڑے پیمانے پر ان کی برطرفی کے اشتہارات چلا کر ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا تو طارق شیخ نے میڈیا میں موجود اپنے “یاروں” کا سہارہ لیا اور ادارے کے خلاف مہم شروع کر دی، اس مہم میں پی ٹی آئی سندھ کے لوگوں کو انہوں نے اپنے ساتھ ملا لیا اور حلیم عادل شیخ کے گٹھ جوڑ کا حصہ بن گئے اور منی بیگم کے فارم ہاؤس پر قبضہ کرنے والے پی ٹی آئی سندھ کے “ٹھیکیدار” حلیم عادل شیخ نے پریس کانفرنس میں آڈیٹر جنرل کے مشاہدات کو بنیاد بنا کر ادارے کو کرپشن کا گڑھ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی، جبکہ ادارے پر عائد کئے گئے ان کے الزامات میں سے ایک بھی ثابت نہیں ہو سکا۔
اس پورے کھیل کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسی بھی طرح لوگوں کو یہ باور کروایا جا سکے کہ وفاقی حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ عام عوام کے فلاح و بہبود کے لئے ہے، وفاقی حکومت کو اگر اداروں کا اتنا ہی خیال ہے تو اس نے اپریل 2021 میں اسٹیل ملز جیسے اداروں کو نجی شعبے میں دینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ پی آئی اے کو کون تباہ کر رہا ہے، ریلوے کو تباہی کے دہانے پر کون پہنچا رہا ہے؟ ان تمام اداروں کو چھوڑ کر وفاق سندھ کے منظم طریقہ کار پر چلنے والے اداروں میں زبردستی گھسنے کی کوششیں کیوں کر رہا ہے؟ مقصد صاف ظاہر ہے، اسٹیل ملز کے بعد آخر دوسرے ادارے بھی تو بیچنے ہیں اور اس مقصد کے لئے پہلے پروپیگنڈہ، جھوٹے کیسز اور ایشوز پیدا کر کے عوام کی ذہن سازی بھی لازم ہے۔