چمن ٹوکراچی روڈ اور دیگر بلوچستان کی شاہراہوں کی حالت زار اور انھیں ڈبل کرنا بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ دستخط ہونے والی چھ نکات کا حصہ ہے۔ اس معاہدہ کے تحت کراچی ٹوچمن روڈ پائپ لائن میں شامل ہوا اور گزشتہ فیڈرل پی ایس ڈی پی میں اس کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے گئے اور منصوبہ پائپ لائین ہی میں رکھا گیا اور اسکی فیزبلٹی رپورٹ تک کے لیئے فنڈز کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی گئی اور گزشتہ سال فزیبلٹی رپورٹ کے لیئے بڈز بھی طلب کی گئیں۔ یہ بھی واضح ہو کہ وزیراعلیٰ صاحب نے بھی گزشتہ سال فیڈرل پی ایس ڈی پی کے وقت بھی اس پر احتجاج کیا تھا کہ اس منصوبے کو فیڈرل پی ایس ڈی پی میں شامل نہ کرنا ناانصافی ہے اور انھیں بھی گزشتہ سال یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ بی این پی کے چھ نکات پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب بی این پی نے حکومت سے رائیں الگ کرلیں لیکن اس معاہدہ کے تحت جو منصوبے پائپ لائین میں رہ گئے تھے۔
انکی اپ ڈیٹ بھی بی این پی نمائندگان کو فراہم کی جاتی رہی ہے کہ وہ کس مرحلے میں ہیں ان پر کام ہورہا ہے یا نہیں ہورہا اورکہاں تک عمل ہوا ہے۔ کوئٹہ ٹو چمن روڈ کے حوالے سے یہی کہا جاتا رہا کہ روڈ پائپ لائین میں اس سال بجٹ میں ہوگا اور جب پی ڈی ایم بیلہ کی جانب سے ہم نے اس مسئلہ پر احتجاج کیا تو ہمارا اپوزیشن جاعتوں سے رابطہ بھی ہوا جس پر انکے ذریعے معلوم ہوا کہ فزیبلٹی رپورٹس مرتب ہونے کے بعد روڈ پر کام کا آغاز ہوجائیگا اور امید حکومت کی طرف سے ہے کہ اس سال اس کے لیے بجٹ فراہم کردی جائیگی۔ باپ کے حلقے یہ کہتے سنائی دیئے کہ روڈ تو پہلے ہی بابا نے منظور کروا لیا ہے تم لوگ خواہ مخواہ ٹوپی ڈرامہ کررہے ہو ۔احتجاج اور پوائنٹ اسکورنگ کررہے ہو۔جس طرح ظاہر ہے ۔
جو حالات نظر آرہے ہیں ان حالات میں چھ نکات کا ایک نکتہ چمن ٹوکوئٹہ روڈ جو کہ پائپ لائین میں ہے شاید اس پی ایس ڈی پی میں فنڈز کی فراہمی کے بعد اس پرکام کا آغاز ہوجائے اور یہ واحد منصوبہ ہے جوکہ اپوزیشن اور صوبائی حکومت کا مشترکہ منصوبہ ہے اسکے لیے دونوں کی کاوشیں ہیں اور یہ اہل بلوچستان کا اجتماہی مطالبہ بھی ہے۔کل ایک خط وزیراعلیٰ صاحب کی طرف سے اس روڈ کے لیئے وزیراعظم صاحب کو لکھا گیا نظروں سے گزرا جسے دیکھ پرانے وقتوں کے بادشاہوں کی یاد تازہ ہوگئی جب بادشاہ سلامت کسی دوسرے بادشاہ کو خط لکھتے تھے اور خط کے ذریعے اپنے مسائل اور مشکلات سے آگاہ کرتے تھے یا ماتحت گورنر ،نائبین بادشاہ سلامتوں کو اپنی مشکلات و مسائل سے آگاہ کرنے کے لیئے خط کا سہارا لیتے تھے اور جمہوری روایات اور پارلیمانی نظام کے بعد یہ عمل ختم ہوگیا اور پھر اسمبلی قراردادوں نے اسکی جگہ لی اوربڑے اور سنگین معاملات اجتماہی ایشوز پرقراردادوں کاسہارا لیا جانے لگا۔ ایک صورت میں جب کسی ملک کے ساتھ یا بڑے صاحب اختیار کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا خدشہ ہوتو اس صورت میں قرارداد کی بجائے خط وکتابت کا سہارا لیا جاتا ہے۔
وزیراعلیٰ صاحب صوبے کے مالک ہیں انکے پاس صوبائی اسمبلی ہے جہاں انکی اکثریت ہے اور چمن ٹوکوئٹہ روڈ ایک ایسا مطالبہ ہے جس میں پوری اسمبلی انکا ساتھ دے گی پھر کیونکر وزیراعلیٰ صاحب نے قرارداد کے بجائے خط کا سہارا لیا اسکی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہم یہی سمجھ رہے ہیں کہ روڈ منظور ہوچکا ہے اب پوائنٹ اسکورنگ کی تیاری ہورہی ہے اور دوسرا ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ وفاق سے بہتر تعلقات بھی استوار رکھنا چاہتے ہیں اس وجہ سے قرار داد کا سہارا نہیں لیا جا رہا۔ خیر ہم اچھے کی امید رکھتے ہیں چمن ٹو کوئٹہ روڈ پر ہم اپنوں کے جنازے اٹھا اٹھا کرتھک چکے ہیں اس سے قبل کہ ہمارا یا پھر کسی انسان کا جنازہ بھی اسی روڈ سے اٹھے اس سے قبل روڈ کو ڈبل کیا جائے اور مجھے فخر ہے کہ قائد تحریک نے اقتدار ٹھکرا کر جو چھ نکات پیش کیئے ان چھ نکات کا یہ روڈ حصہ تھا اور مجھے فخر ہے بی این پی وہ قومی جماعت ہے جو عوامی رائے کے مطابق عملی طور پر اس روڈ کے لیئے احتجاج کرتی آرہی ہے۔