کچھ عرصہ قبل کراچی پرتحقیق کرنے والے ایک محقق کے ساتھ شہرکے مضافاتی علاقے فقیرکالونی جانے کااتفاق ہوا۔۔ خوب صورت حب ریور روڈ سے جیسے ہی اس بستی کی طرف مڑے پہلے تو اندازہ ہواکہ ہم کسی پہاڑی سلسلے میں داخل ہورہے ہیں۔۔۔ دونوں جانب پتھریلے پہاڑوں اور پھر ٹوٹی پھوٹی سڑک نے بھر کس نکال دیئے۔۔بڑی مشکل سے علاقے میں داخل ہوئے تو صحافی دوست نے استقبال کیا اور روایتی انداز میں تھکان دیکھ کرپہلے پانی پیش کیا۔ہم شہری لوگوں کی ایک عادت ہے کہ آدھاکھاتے ہیں۔
اورباقی پھینک دیتے ہیں یہ جانے بغیرکہ ہمارے بچے کچے کھانے سے کتنوں کے پیٹ کی آگ بجھ سکتی ہے۔جیسے ہی آدھاپانی پھینکنے لگا تو دوست نے ہاتھ روک کرکہا کہ ہمارے ہاں پانی نہیں ہے یہاں ہفتے میں ایک دن واٹرٹینکرآتا ہے اور فی ٹینکرچھ ہزار روپے فروخت ہوتاہے۔ پہلے تو بہت برا لگا لیکن جلد ہی ساگرکنارے پیاس کا طنزیہ جملہ کہہ کر ماحول بہترکرنے کی کوشش کی۔ فقیرکالونی کے بارے میں تو مشہور ہے کہ یہ ساگرکنارے آبادبستی ہے۔اور رنگی جسے بلوچی میں بارش سے لہلہانے والا خطہ کہتے ہیں۔
حب کے پہاڑی سلسلے کے سنگم میں واقع فقیرکالونی میں تقسیم سے پہلے زندگی بارشوں کے پانی کی مرہون منت تھی ۔ پہاڑی ڈھلانوں میں پانی کی آمدکے ساتھ ہی کھیتی باڑی اور روزمرہ استعمال کے لئے پانی جمع ہوجاتاتھا۔تاہم 1963 میں حب ڈیم منصوبے کاآغازہوا جس کامقصد حب اور ساکران کے باغات کوپانی کی فراہمی اور اورنگی،مواچھ اور اطراف کے لوگوں کے لیے پانی پہنچانا تھا۔ اس آبی منصوبے کوپاکستان کاتیسرا بڑا پانی کامنصوبہ بھی قراردیاگیا۔45 کلو میٹر کے علاقے تک پھیلے حب ڈیم سے دو نہریں نکالی گئیں۔
جن میں سے ایک کینال حب ڈیم کے اطراف کے بلوچستان کے علاقوں کی زرعی ضروریات کیلیے پانی کی فراہمی اور دوسری جانب حب کینال سے کراچی کے غربی علاقوں کو پینے اور دیگر استعمال کے لیے پانی سپلائی کیا جاناتھا۔منصوبے کی تکمیل کے ساتھ ہی 1980.81 میں او پی پی نامی ایک این جی او منظر عام پر آگئی جس نے علاقے پرپہلاحملہ کیا اور پانی سمیت دیگرمنصوبوں پر اپناحق جتانا شروع کیا۔ این جی او کے پروجیکٹس میں قدیم آبادیوں کے بجائے نئی آباد کاری کوترجیح دی گئی۔فقیرکالونی کے مکینوں کے مطابق کراچی میں لسانی اور جغرافیائی تصادم نے جہاں دیگرعلاقوں کومتاثر کیا وہیں ۔
فقیرکالونی بھی محفوظ نہ رہ سکی۔ مشرف کے دور اقتدار میں متحدہ قومی موومنٹ بلاشرکت غیرے شہرپر راج کرتی رہی اوراس وقت کے ناظم کراچی مصطفیٰ کمال نے لسانی بنیادوں پر علاقے میں پانی کی سپلائی روک دی۔ علاقے کے سماجی حلقوں کاکہنا ہے کہ ان کی خواتین یومیہ پچاس پچاس گیلن پانی لانے پرمجبورہیں۔ جبکہ پیپلزپارٹی خواتین ونگ کی صدر شاہدہ رحمانی کاتعلق بھی اسی اورنگی ٹاؤن سے ہے لیکن بارہ سالہ پیپلزپارٹی کے دور اقتدارمیں بھی ہم اذیت کاشکارہیں۔علاقے میں الخدمت ،سیلانی اور دیگرفلاحی اداروں اور مخیرحضرات کی جانب سے بورنگ لگائی گئی ہیں۔
تاہم پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث پانی کھارہ ہے جس سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔گزشتہ سال اگست میں ہونے والی بارشوں کے دوران حب ڈیم میں پانی کی سطح بھی بلند ہوئی تھی اور اس وقت واٹربورڈ اورواپڈا حکام کاکہنا تھاکہ یہ پانی تین سال کے لیے کافی ہے۔ بارشوں میں ڈیم میں پانی کی سطح 339 تک پہنچ گیاتھا۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ فقیرکالونی میں سولہ ہزار سے زائد گھرانے آج بھی ٹینکرمافیاکے رحم وکرم پرہیں۔جہاں فی ٹینکر چھ سے آٹھ ہزارروپے میں فروخت کی جاتی ہے اور اس ٹینکر مافیاکی سرپرستی کے حوالے سے ہمیشہ انتظامی افسران اور مقامی سیاسی مافیا کے نام آتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ٹینکرمافیاکے ذریعے ماہانہ پچاس لاکھ روپے سے زائدکی آمدنی ہوتی ہے جوتمام کے تمام ٹینکرمافیا ، افسرشاہی اور مقامی سیاسی وڈیروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ معاملے کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے سندھ حکومت اپنی ذمہ داریوں کااحساس کرے اور جہاں حب کے پانی سے آدھے کراچی کوسیراب کیاجاتاہے توچند قطرے فقیرکالونی کے مکینوں کابھی حق ہے۔