برسلز: یورپی یونین نے ایران کی ملیشیا اور پولیس کے آٹھ کمانڈروں اور تین ریاستی اداروں پر نومبر 2019ء میں مظاہرین کے خلاف خونین کریک ڈاؤن پر آئندہ ہفتے سے پابندیاں عائدکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
برسلز میں تعینات تین مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ یورپ میں ایسٹر کی تعطیلات کے بعد آئندہ ہفتے کسی وقت ان پابندیوں کا نفاذ کیا جائے گا۔پابندیوں کی زد میں آنے والے ایرانی عہدے دار سفر نہیں کرسکیں گے اور ان کے یورپی ممالک میں موجود اثاثے منجمد کرلیے جائیں گے۔یورپی پابندیوں کی زد میں آنے والوں میں ایران کی طاقتور باسیج ملیشیا کے کمانڈر بھی شامل ہیں۔
ایرانی حکومت سپاہِ پاسداران انقلاب کے تحت اس ملیشیا ہی کو نظام مخالف احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔2013ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایرانی حکام اور اداروں پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پاداش میں یورپی یونین کی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔اس پیش رفت کے حوالے سے یورپی یونین کے کسی عہدے دار یا برسلز میں ایرانی سفارت خانے نے فوری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
یادرہے کہ ایران میں ایندھن کی راشن بندی ،ابترمعاشی حالات اور مہنگائی کے خلاف 15 نومبر 2019ء کو احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے اور یہ کوئی دو ہفتے تک جاری رہے تھے۔ایرانی سکیورٹی فورسز نے اس احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے مظاہرین کے خلاف خونیں کریک ڈاؤن کیا تھا جس کے نتیجے میں کم سے کم ڈیڑھ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
تاہم ایرانی حکام نے ہلاکتوں کی اس تعداد کو من گھڑت قرار دیا تھا جبکہ اقوام متحدہ نے 304 ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی۔واضح رہے کہ 9 مارچ کواقوام متحدہ کے خصوصی نمایندہ جاوید رحمٰن نے ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔
اور اس میں کہا تھا کہ ایرانی حکومت نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا تھا۔انھوں نے تشدد کے واقعات میں ملوّث اہلکاروں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کرنے اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہ کرنے پرایران پرکڑی نکتہ چینی کی تھی۔