چند دنوں سے کچھ لکھنے کے لیے سوچ رہا تھا کہ خیال آیا ۔۔۔۔۔۔۔ اخبار والے بکواس بھی چھاپتے ہیں ؟ جواب پانے کے لیے اخبار اٹھا کر دیکھا تو تسلی ہوئی ۔۔۔۔ جی چھاپتے ہیں ! ہمارا رونا یہ ہے کہ ہم مظلوم ہیں ۔ اب سوال ہے کہ ہم اس ظلم کے خلاف کر کیا رہے ہیں ؟ جواب ملا ۔۔۔۔۔ بکواس ۔ ہمیں علم ہے کہ ہم معاشی طور پر انتہائی پستی سے ہمکنار ہیں مگر اس حالت کا مداوا کیا ہے ؟ بکواس ! ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے بچے اور نوجوان اسکول ، کالج اور یونیورسیٹیز سے باہر ہیں ۔اور اگر ہم نے اس حوالے سے کچھ کیا ہے تو وہ ہے ۔۔۔۔۔ بکواس !
کافی حد تک سازشوں کے دام میں گرفتار قوم اگر موج مستیوں میں مگن رہے اور دعاؤں پر قناعت کرے تو اس کا بدلنا ممکن نہیں۔ اور ہاں معجزہ وعجزہ کچھ نہیں ہوتا ۔ سب کچھ عمل سے ممکن ہے ۔ بکواس دراصل ہماری کاہلی کا پردا ہے ۔ اور اس پردے میں ہم نے اپنی شکستگی اور ناکامیاں چھپا رکھی ہیں ۔ بکواس کرنے کی ہماری پریکٹس بہت پرانی ہے ۔ ہم اسے نسل در نسل منتقل کرتے آرہے ہیں ! حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہم بہ یک وقت اپنی پچھلی نسل کو بکواس کرنے پر لعن طعن کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ آئندہ نسل کو بکواس کرنے کی تر غیب بھی دے رہے ہوتے ہیں !!
ہم نے بڑے مظالم سہے ۔ ہم آج بھی نامساعد حالات سے دوچار ہیں مگر خوش قسمتی سے ہمارے پاس ماضی میں بھی مسائل کا حل تھا اور آج بھی ہے ۔ اب سوچا جائے آخر یہ مسائل آج بھی ہر وقت ہمارے گرد و پیش کیوں موجود ہیں ؟کیا وجہ ہے اس کی ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے اوپر خالی جگہ آپ نے بکواس سے بھر دی ہوگی ۔ میں کسی سے معذرت خواہ نہیں ۔ اگر میری کوئی بات کسی کو بُری لگی ہو تو مجھے خوشی ہوگی ۔ البتہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں عملی طور پر متحرک لوگوں کو آفرین و صد سلام ۔