سابق وزیراعلیٰ بلوچستان،بی این پی کے صدرسرداراخترجان مینگل ایک ایسے وقت میں پی ڈی ایم کو بچانے نکلے، جب پی ڈی ایم کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹ اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کو بلوچستان عوامی پارٹی کامیاب بنانے کیلئے ووٹ کررہی تھی، اور تاریخ کا یہ پہلا اپوزیشن لیڈرہیں جوحکومتی ارکان کی ووٹنگ سے کامیاب قرارپائے،معلوم نہیں اس غیر فطری اتحاد کو سردارصاحب کیسے بچانے میں کامیاب ہوں گے۔پاکستان میں جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدان پاکستان میں بننے والی شخصی حکومتوں، آمریت اورجمہوریت سے متصادم سیاسی نظاموں کو بھی جمہوری رنگ دیتے رہے ہیں۔
اوریہی سیاستدان وملاازم،مغربی جمہوریت کے غلط معنی سے عوام کو گمراہ کرتے رہے حالانکہ مغربی جمہوریت، جس کی بنیاد عوام کے اقتدارِاعلیٰ اور نمائندہ حکومت کے تصورات ہیں، کو سرمایہ دارانہ نظام قرار دیا گیا۔جبکہ پاکستان میں قائم جاگیردارانہ،سرمایہ دارانہ،آمریت اورظلم کے نظام کوجمہوریت کا نام دیا گیاساتھ ساتھ یہ تصوربھی دیا گیا کہ عوام صرف قائد کی طرف دیکھے۔ ان کی بات سنیں، اور من و عن عمل کریں۔ نہ شک کی گنجائش، نہ بحث کی ضرورت۔ عوام نے تمام خوبیاں قائد کی ذات میں تلاش کیں، اور عوام کو انہیں تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا۔
اصول، عقل ودانش، ادارے، سب ایک طرف۔ صرف قائد کی شخصیت، اندھی تقلید، بلا چون و چرا اطاعت کو سیاسی نظرئیے کا نام دیا گیا۔نیپ کی تحلیل کے بعدسے بلوچستان کی قوم پرستانہ سیاست پاکستانی سیاسی کلچر میں ضم ہوگئی،اور اس وقت بلوچستان کی قوم پرستی کی سیاست بالکل پاکستانی اسلام کی طرح بن چکا ہے جہاں ہر پاکستانی حکومت میں اسلام کا رنگ بدلتا رہتاہے،جیسے کہ عمران خان ریاست مدینہ کا راگ الاپ رہے ہیں اسی طرح ملک کے ابتدائی حکمرانوں کا اسلام لبرل، جدیدیت پسند تھا، ایوب خان کا معاشی ترقی کا اسلام تھا۔
یحییٰ خان کا قوم پرستی کا اسلام تھا، بھٹو کا سوشلسٹ اسلام اور جنرل ضیاالحق کا احیائی اور بنیاد پرستانہ اسلام تھا۔اور اب عمران خان کا ریاست مدینہ۔۔۔بالکل اسی طرح بلوچستان میں قوم پرست سیاست کا معیاربھی بدل گیا ہے،موجودہ بلوچستان کی قوم پرستی کی سیاست ایک گروہ کی سیاست کا رخ اختیار کرچکی ہے،جو صرف اپنے مفادات کا نگہبان ہے،اب بلوچستان میں قوم پرستی کی بنیاد اس بات پر ہوتی ہے کہ اس گروہ کو موجودہ ریاست کے اندر اقتدار میں کتنا حصہ مل رہا ہے۔اس وقت قوم پرستی کی تحریک میں اصل حقیقت سیاسی اقتدار کی ہے۔
جبکہ ثقافت، تشخص اور تاریخ کی حیثیت ثانوی اور زیب ِ داستان کی رہ گئی ہے۔کیونکہ قوم پرستی کے مستقبل کا انحصار اس بار پر ہے کہ ریاست ان سے کیسا سلوک کرتی ہے اب پارلیمان پرست بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں قوم پرستی حقیقت میں تشخص، ثقافت اور روایات سے نہیں بلکہ براہ راست سیاسی اقتدار کے معاملہ سے جڑی ہوئی ہے۔جس کا اندازہ حال ہی میں سینیٹ کے الیکشن سے بخوبی لگایاجاسکتاہے،ماہرین کہتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات کے دوران ووٹ بیچنے کو پہلے معیوب سمجھا جاتا تھا، لیکن اب یہ عام ہوگیا ہے۔
تاہم بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کے ارکان اور جے یوآئی کے لوگ اپنے ہی لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں، وہ بکتے نہیں ہیں۔’تاہم کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ 1998 یا 1990 سے شروع ہوا۔ اس وقت ایک ایم پی اے کی قیمت 50 لاکھ روپے تک تھی۔شہزادہ ذوالفقار کے بقول: ”بلوچستان کی نشستوں پر باہر سے آنے والے سرمایہ کاروں کا عمل دخل عرصے سے جاری ہے۔ 1990 میں زرات خان، صدرالدین ہاشوانی اور اکرم ولی محمد کو یہاں سے منتخب کرایا گیا۔جن کا بلوچستان سے تعلق تھا۔ نہ ہے،یادپڑتا ہے کہ ‘اکرم ولی محمد جب سینیٹر بننے کیلئے آئے تو انہوں نے کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں آکر کیمپ لگایا۔
اورر اس وقت کے وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کے پولیٹکل سیکرٹری نے آکر یہاں معاملات طے کیے اور وہ سینیٹر بھی منتخب ہوگئے۔“ہم نے انتخاب کے بعد سینیٹر ولی محمد سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا وہ بلوچستان کی ترقی کے لیے اقدامات کریں گے، لیکن اپنے تین سالہ دور میں انہوں نے نہ کبھی صوبے کا دورہ کیا اور نہ ہی سینیٹ کے اجلاس میں کوئی بات کی۔’سینیٹ کے انتخابات کے دوران کبھی دلچسپ صورتحال بھی سامنے آتی ہے۔ شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ پچھلے انتخابات کے دوران حسین اسلام بھی یہاں آئے تھے۔
انہوں نے ٹیکنوکریٹس کی نشست کے لیے کاغذات جمع کرائے لیکن ان کے کاغذات پہلے یہاں سے اور بعد میں سپریم کورٹ سے بھی مسترد ہوگئے۔انہوں نے بتایا: ‘حسین اسلام نے چونکہ پہلے پیسے دے دئیے تھے اور ایم پی ایز نے انہیں پیسے واپس کرنے سے انکار کردیا تھا، لہذا اس کا حل اس طرح نکالا گیا کہ انہیں عبدالقدوس بزنجو نے مشیر بنالیا اور فشریز کا محکمہ دے دیا۔’بقول ایک سینئرکے کہ ‘چونکہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سندھ کے غیر قانونی ٹرالرز آتے ہیں، جو غیر قانونی شکار کرتے ہیں۔
لہذا حسین اسلام کو بھی یہ محکمہ دیا گیا تاکہ وہ اپنے ڈوبے ہوئے پیسے نکال سکیں“۔ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ یہ المیہ ہے کہ بلوچستان کو ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ باہر کے لوگ یہاں آتے ہیں، ووٹ خریدتے ہیں اور سینیٹر بن جاتے ہیں۔ ‘چونکہ عبدالقدوس کے دور میں جو لوگ بکے وہی، اب بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ ہیں، لہذا میں نہیں سمجھتا کہ یہ لوگ دوبارہ نہیں بکیں گے۔’ بلوچستان سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے اس وجہ سے آئیڈیل ہے کہ یہاں تعداد کم ہونے کے باعث ووٹ خریدنے میں آسانی ہوتی ہے۔
سینیٹ یا کوئی بھی پارلیمان کا نشست لینا پاکستانی سیاست کاکلچربن چکا ہے۔ یہ پورے پاکستان میں ہے لیکن ہمارے ہاں زیادہ ہے۔ جس طرح سینیٹ کے الیکشن کا طریقہ کار ہے، اس میں کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔بلوچستان نیشنل پارٹی نے قاسم رونجھو سرمایہ دارکوساجد ترین ایڈووکیٹ کے مقابلے میں سلیکٹ کیا،اسی طرح پروفیسرطاہرجتک اور ریحانہ حبیب جالب کے مقابلے میں نسیمہ احسان کو کامیاب کراکے ثابت کردیا کہ نظریاتی سیاست دم توڑ چکی ہے۔خدارا اب اس قسم کی باتیں بھی نہ کیا کریں۔