|

وقتِ اشاعت :   March 2 – 2015

پاکستان کا معاشی بحران اتنا شدید ہوگیا ہے کہ اب صرف گوادر یا ساحل مکران سے توقعات وابستہ ہوگئے ہیں کہ وہ پاکستان کو اس معاشی بحران سے نکالیں گے۔ چین ساحل مکران پہنچنا چاہتا ہے جس کے توسط سے وہ وسط ایشیا، مغربی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء سے زیادہ قریبی تجارتی اور معاشی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے سابق حکمرانوں نے خود ہی گلگت و بلتستان کو متنازعہ علاقہ بنادیا اور کہا کہ یہ کشمیر کا حصہ ہے تاکہ استصواب رائے کی صورت میں پاکستان کو اضافی ووٹ ملیں اور کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے۔ بھارت اور ان کی حامی حکومتوں نے استصواب رائے نہیں ہونے دیا۔ مگر گلگت و بلتستان کو متنازعہ علاقہ ضرور بنادیا لہٰذا چین یا کوئی اور دوست ملک متنازعہ علاقوں میں سرمایہ کاری نہیں کرتے اس لئے یہ علاقہ پسماندہ ہی رہے گا تاوقتیکہ اس تنازعہ کا کوئی حل نکالا جائے۔ ہم نے انہی کالموں میں ایک سے زائد بار لکھا تھا کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ نہیں ہے یہ پاکستان کا حصہ ہے اور وہاں کے عوام نے طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی اور اس کو اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل کیا۔ دوسری بات یہ کہ چین بحر بلوچ میں ضرور پہنچنا چاہتا ہے اس لئے اس نے گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر میں حصہ لیا۔ یہ پاکستان کے کرپٹ حکمران ہی تھے کہ گوادر بندرگاہ کی انتظامیہ کو سنگاپور پورٹ اتھارٹی کے ہاتھوں فروخت کیا۔ چین نے دوسرے فیز کی تعمیر میں حصہ لینا بند کردیا ہے۔ چین آج بھی wait and seeکی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کا دوسرا فیز شروع نہ ہوسکا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اس منصوبہ میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ دوسری طرف ملک میں پاک چین تجارتی راہداری پر ایک اعلان جنگ ہوچکا ہے۔ اس میں پنجاب اور کے پی کے اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بلوچ خاموش ہے۔ اس کے پاس گوادر کے علاوہ 8دیگر بندرگاہیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ساحل مکران پر درجن بھر بندرگاہیں موجود ہیں اور اس کے علاوہ 100سے زیادہ مچھیروں کی بستیاں ہیں۔ چین بہر حال ساحل مکران پہنچنا چاہتا ہے۔ وہ گلگت بلتستان کے متنازعہ علاقے کو استعمال کرنے کے بجائے چاہ بہار، افغانی بلوچستان، افغانستان، تاجکستان اور سنکیانگ یا کاشغر کا روٹ استعمال کرے گا۔ اس منصوبہ کو ایران اور بھارت کی دو اہم ترین معاشی قوتوں کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ کی تعمیر میں بھارت کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس پر ابتدائی سرمایہ کاری بھارت نے اس وقت شروع کی جب اس کو یہ یقین ہوگیا کہ پاکستان بھارت کو کبھی بھی افغانستان اور وسط ایشیاء سے تجارتی راہداری کا حق نہیں دے گا خصوصاً گوادر سے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ گوادر کے بندرگاہ کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے کی کہ اس سے بھارت فائدہ نہ اٹھالے۔ بھارت نے چاہ بہار کے بندرگاہ پر زبردست سرمایہ کاری کی ہے۔ حال ہی میں اس کی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، اس کو ریل اور سڑک کے ذریعے ایران کے دور دراز علاقوں، افغانستان اور تاجکستان کے ساتھ ملانے کے لئے 30کروڑ ڈالر کی رقم مہیا کی ہے اس طرح بھارت بندر عباس کے بجائے چاہ بہار کی بندرگاہ استعمال کرے گا۔ بندر عباس سے وسط ایشیاء کا فاصلہ 2800کلومیٹر ہے جبکہ چاہ بہار سے یہ فاصلہ 1400کلومیٹر ہے چین نے بھی اس منصوبہ میں زبردست سرمایہ کاری کا پروگرام بنایا ہے۔ چین سنکیانگ کی سرحد سے لے کر تاجکستان تک سڑک اور ریلوے لائن تعمیر کرے گا۔ ایران اس میں فنی تعاون کے علاوہ مالی امداد بھی دے گا۔ ایران چاہ بہار سے زرنج جو افغانی بلوچستان کا دارالخلافہ ہے وہاں تک سڑک تعمیر کرے گا اور ریلوے لائن بچھائے گا۔ اس کے علاوہ ایران افغانستان کو مالی اور فنی امداد دے کر افغانستان سے تاجکستان تک سڑک اور ریلوے لائن تعمیر کرے گا جبکہ تاجکستان اپنے ملکی میں خود ریل اور سڑک کا نظام قائم کرے گا۔ اس طرح سے یہ ریل کی خلاء Rail Gapکو پر کیا جائے گا اس منصوبہ پر تین بڑے اور اہم ترین ممالک ایران، بھارت اور چین سرمایہ کاری کریں گے جبکہ گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کے دوسرے فیز کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے گوادر سے منسلک کسی بھی شاہراہ پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا ۔گوادر کے لئے پینے کا پانی نہیں ہے، اس کی بجلی ایران سے آئے گی۔ لہٰذا پاک چین تجارتی راہداری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ صرف عوام الناس کو یہ تسلی دینا کہ گوادر پورٹ پاکستان کے تمام معاشی اور مالی مسائل کا حل ہے، کافی نہیں ہے۔