|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2021

پچھلے کئی دہائیوں سے بلوچ قوم کو زوال کی طرف دھکیلنے میں کئی اقوام بر سرِ پیکار ہیں کہ بلوچ قوم کو دو مختلف اقوام میں بانٹ کر بلوچستان کو آسانی سے تھوڑا جاسکے۔ یہ پالیسی کہیں اور نہیں بلکہ انیسویں صدیں کے اوائل سے شروع ہوچکا جس کو برطانوی حکومت کی پالیسی rule and devideماننے سے کوئی انکاری نہیں۔ یاد رہے اگست 1600 میں ویلیم ہاکنز ( Hawkins William) کا برصغیر میں ایک مہاجر کی طرح داخل ہونے سے لیکر مغل شہنشاہ جہانگیر تک رسائی، انکی عزت افزائی اور وزیر و مشیر بننے کے بعد انگریزوں کا پورے برصغیر پر قبضہ جمانا کوئی انہونی بات نہیں رہی تھی۔

کئی حاکموں کو محکوم کرنا اور کئی سلطنتوں کو اپنے زیر کرنا انگریزوں کیلیے چٹکی بجانے کے مترادف تھا مگر ایک واحد قوم جس نے ہر پل برطانوی سامراج کا منہ توڑ جواب دیاوہ بلوچوں کی بہادری کے انوکھے شواہد ہیں۔ اسی بنیاد پر برطانوی قبضہ گیریت کے زمانہ میں بلوچوں کو سوائے تقسیم کرنے اور ان پر قبضہ کرنے کے کوئی متبادل تھا ہی نہیں ۔ تاریخ کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے جب کوئی تاریخی منطق اور عقلی بنیادوں پر بلوچ قوم کا مطالعہ کرے گی تو انھیں سب سے بہادر، نڈر، مخلص، مہمان نواز اور سب سے بڑھ کر جنگجو پائے گا۔

یہی وہ خصوصیات ہیں جو دشمن کو بلوچوں کا سامنا کرنے کے بجائے ان کو ذہنی اور قومی نقصان پہنچانے پر اکساتے رہے۔ یہی وہ پالیسی، انتشار اور تقسیم ہے جس نے بلوچ قوم کو آج تک کمزور کر رکھا ہے وگرنہ یہ قوم سر جھکانے والی قوموں کی فہرست سے کوسوں دور تھا۔ یاد رہے کسی قوم کی ثقافت، رسم و رواج حتیٰ کہ اٹھنا بیٹھنا ایک ہی ہو ،کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنا تعاصب، ضد اور دشمنی کی علامات تو ہوسکتی ہے مگر دوستی اور پسندیدگی کی نہیں۔ تحقیقی اور حقیقت کی نقطہ نظر سے دیکھا جا? تو ہر براھوائی بولنے والا بلوچی سمجھ اور بول سکتا ہے۔

اور ہر بلوچی بولنے والا کم سے کم براھوائی سمجھ سکتا ہے۔ براھوائی بولنے والا ہر بلوچ خود کو فخر سے بلوچ کہنے اور لکھنے میں کوئی ہار محسوس نہیں کرتا کیونکہ ہر ذی شعور بلوچی اور براھوائی بولنے والے کو پتہ ہیں کہ وہ ایک ہی قوم بلوچ سے تعلق رکھتے ہیں جسکی ادبی اثاثہ دو زبانوں (برھوائی، بلوچ) پر مشتمل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خوانینِ قلات اور سراوان، جھالاوان، رخشان سے لیکر لسبیلہ و مکران تک کے سردار و خواننین نے خود کو بلا جھجک بلوچ سردار اور خان بلوچ کہا وگرنہ کیا ضرورت یا طاقت ہوسکتی تھی جو خوانین قلات میر قمبر (قنبر)قمبرانی بلوچ سے لیکر خان نوری نصیر خان بلوچ تک کو خود کو براھوائی کہنے کے بجا? بلوچ کہنے پہ مجبور کرتا؟ یاد رہے۔

خوانین قلات بلوچستان کو بھی تاریخ انکے نام کے ساتھ خان بلوچ لگا کر یاد کرتا ہے جیسے خان مہراب خان بلوچ، خان میر نوری نصیر خان بلوچ وغیرہ جو اس قوم کے ایک ہونے کا ایک منطقی جواب ہے۔اسی طرح بلوچ ثقافتی چیزوں کے نام کے شروع میں براھوائی کے بجا? بلوچ لگایا جاتا ہے جیسے بلوچی ٹوپی، بلوچی شلوار، بلوچی گدان، بلوچی دیوان، بلوچی کشیدہ حتی کہ بلوچستان جو کہ صرف بلوچوں (جس میں براھوائی بولنے والے بلوچ بھی شامل ہیں)کی ملکیت ہی مانا جاتا ہیں جیسے *خان بلوچ، خان عبداللہ قہار* اپنے کسی بلوچ ادبی غزل میں بیان کرتے ہے کہ : *کوئنگ ءِ اے کوہِ قلات، کسے پتئے میراث نا انت، ماگو سگاراں گپتگو*.

یاد رہے بلوچی ثقافتی چیزوں کے یہی نام یکساں طور پر پورے بلوچستان سراوان (برھوائی بولنے والے بلوچ اقوام ) اور مکران (بلوچی بولنے والے اقوام) میں بولے جاتے ہیں۔ رہا سوال بلوچوں کو دو مختلف طبقوں میں بانٹنے کا تو حقیقتاً یہ اس قوم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی ایک سازش کے سوا کچھ بھی نہیں اور یہ سازش برطانوی حکومت کے دور میں ایک چالاک اور ہوشیار جرنیل *ہینری پوٹینگر* کے ہاتھوں شروع ہوا جو چند ماہ بلوچستان میں آوارہ پھرنے سے بلوچستان کی تاریخ کا ایک مشہور و معروف تاریخ دان بن گئی۔

یوں کہی درجن انگریز جرنیل بلوچستان کا دورہ کرتے ہو? بلوچ قبائل و سردارانِ بلوچ کو انکی لسانی یا ادبی تفریق کے طور پر دو قوم بننے پہ مجبور کرتے رہیں، انہیں جرنیلوں میں رابرٹ سنڈیمن جو کہ مری قبائل، خوانین قلات و لسبیلہ و مکران کے درمیان ثالثی کے نام پہ فتنہ برپا کرتا گیا اور آگ لگاتا گیا جسکی تپش سے اب تک بلوچستان کا وسیع و عریض زمین پگھلتا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ چند انگریز لکھاریوں نے اپنی تصانیف میں براھوائی بلوچ کو دو الگ قوم لکھنے کے بعد براھوائی بولنے والے اقوام کو دراوڑی قوم لکھتے رہیں مگر وہ گھونگے بیرے اندے تھے۔

جو خود ہی کہی جگہوں پہ بلوچ اور برھوائی بولنے والوں کی ثقافت کو ایک قدیم ثقافت مان کر مونجھو دڑو سے انکی باقیات ملنے کا پتہ دیتے تھیں اور بعد میں اسی قوم کو تقسیم کرنے کی خاطر دراوڑ قرار دی جسکا کوئی تاریخ اور ادب واضح نہیں۔ انہی انگریز لکھاریوں میں لیفٹیننٹ آر لیچ اور ڈبلیو ڈبلیو ہنٹری تھیں جنہوں نے اس قوم کو تھوڑنے کی سر تھوڑ کوشیشیں کی مگر بیسود! افسوس کا عالم یہ ہے کہ انہی لکھاریوں میں چند بلوچ احباب و لکھاری بھی شامل ہیں جو بلوچ قوم کو دو اقوام بلوچ اور براھوائی لکھتے اور مانتے ہیں جو انکی کم علمی اور انگریزوں کا ہم پلہ بننے کی ٹھوس شواہد ہیں۔

مگر بلوچستان کے عظیم، نامور اور معروف شاعر و ادیبوں کی تحرورں سے بلوچوں کو دو اقوام میں بانٹنے کے شکوک خاک ہوجاتے ہیں جو بلوچ قوم کو براھوائی و بلوچ میں تھوڑنے کی نظری? کو سراسر غلط اور سامراجی فعل قرار دیتے ہیں، انہی لکھاریوں میں آغا نصیر خان احمدزئی بلوچ، میر گل خان نصیر، میر عاقل خان مینگل، ملک صالح محمد لہڑی و کہی دیگر حضرات شامل ہیں جنہوں نے اپنی نظریے کی تائید عربی و فارسی لکھاریوں کی مدد سے کی، اسی طرح یاسمین بسمل اپنی خوبصورت شاعری

*’نا ماڑی نا مون آ گدان ء ِ کنا’ ‘ برھوائی، بلوچی زبان ء کنا’* سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے کہ بلوچ ایک واحد قوم سرزمین بلوچستان اور دو زبانوں (برھوائی، بلوچ) کا وارث ہے۔

سامراجی پالیسیاں جیسے (devide and rule) اور (Operation seduction) تو ناکام ہونگے مگر دشمن کا ہالاکار بننا، گرینڈ جرگوں سے قبائلیوں میں انتشار پھیلانا اور اپنے سلام و کلام سے خود ہی کو دو الگ قوم لکھنے سے اس قوم اور بلوچ نظریے کو ہی زدوکوب کیا جاسکتا جس کا نتیجہ لامحالہ تیز آندھی، طوفان، جلستی سورج، تڑپتی لاشیں اور پگھلتا سرزمینِ بلوچستان ہی ہوگا!