یوں تو بلوچستان معدنیات اور معدنی ذخائر سے مالا مال صوبہ ہے لیکن وفاق اور صوبہ کی نااہلی کے باعث بلوچستان کی سوا کروڑ آبادی امیر ترین صوبہ بننے کے بجائے خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں ہمارے سیاسی اشرافیہ کو نہ تو صوبے کی ترقی مقصود ہے اور نہ ہی عوامی معیار زندگی میں تبدیلی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ بلوچستان شاید دنیا کا واحد صوبہ ہے جہاں نہ تو کوئی پوچھ گچھ ہوتی ہے اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں کی چیک اینڈ بیلنس اور نہ موثر مانیٹرنگ؟ آپ صوبے کے مفلوک الحال عوام کی معیار زندگی سے اس حقیقت کا اندازہ لگائیں کہ بلوچستانی عوام افریقہ ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے ممالک کی طرح پسماندگی کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
ستر فیصد لوگوں کو صاف پینے کے پانی کی سہولت دستیاب نہیں ۔ پورے ملک کے بیماریوں کا ڈیٹا نکالیں تو بلوچستانیوں کی شرح بیماریوں میں مبتلا ہونے کی سب سے زیادہ ہے جہاں پورے صوبے کے عوام بدحالی کا شکار ہیں وہاں اسی پسماندہ اور محرومیوں سے دوچار صوبہ کے اراکین قومی و صوبائی اور سینٹ امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں؟ صوبے میں سالانہ کی بنیاد پر اربوں روپے کی خطیر رقم ترقیاتی منصوبوں کیلئے صرف ہوتے ہیں لیکن ان فنڈز کا کوئی آئوٹ پٹ یا فائدہ عوام کو نہیں ہو رہا یعنی وہ ترقیاتی منصوبے کہاں لگتے ہوتے ہیں؟
کیا واقعی عوام کی فلاح وبہبود و ترقی کی اسکیمات زمین پر بنے یا پھر ترقیاتی منصوبے کاغذوں کی ہی زینت بنکر الماریوں میں محفوظ ہوتے رہے ہیں۔ صوبے کے غریب وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی سوچ دیکھیں وہ صوبے کی ترقی پسماندگی اور محرومیوں کے خاتمے اور عوامی ترقی میں انقلاب لانے کے بجائے سوشل میڈیا پر ہمہ وقت مگن رہتے ہیں وہ اتنا وقت سوشل میڈیا کو دیتے ہیں اگر حقیقت میں وہی وقت گڈ گورننس، محکمہ جاتی اصلاحات، میرٹ، کرپشن اور سفارش کلچر کے خاتمے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کریں تو بلوچستان میں ترقیاتی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔
یا یوں کہیں کہ بلوچستان میں ترقی کا ایک نہ ختم ہونے والے دور کا کسی حد تک آغاز ہو سکتا ہے۔جام کمال خان کے شوق کی انتہاء کو دیکھئے کہ وہ سوشل میڈیا کے اتنے دلدادہ ہیں کہ وہ ستر سے زائد سوشل اکاوئنٹس کو وقت دیکر اپنے فالوورز کو انٹرٹین کرتے ہیں۔ جس کا وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان متعدد فورمزپر خود اعتراف بھی کر چکے ہیں۔ جو وزیر اعلیٰ ستر سے زائد سوشل اکاوئنٹس کے ایڈمن ہوں۔ کیا وہ بلوچستان اور گورننس کو وقت دے سکتے ہیں؟ درصل ہمارے حکمران بلوچستان جیسے صوبے کی بدحالی اور عوام کیلئے المیہ سے کم نہیں۔
کیا صوبے کے سیاسی پیش امام وزیر اعلیٰ غریب مفلس لاچار اور اکلوتے صوبے کے عوام اور بیوروکریسی کا ایڈمن بننا پسند کریں گے؟ کیا وہ سابق حکمرانوں سے مختلف اقدامات کرکے بلوچستان کی محرومیوں کو خوشحالی اور ترقی میں بدلنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں اسی وجہ سے بلوچستان میں اربوں روپے کی ترقیاتی فنڈز زمین پر نظر آنے کے بجائے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں اور بیچارے عوام غلامی در غلامی کی خوشنما نعروں اور سیاسی پرفریب وعدوں کے اسیر ہو کر غربت، پسماندگی، بیروزگاری، بیماریوں، روڈ حادثوں، بھوک و افلاس، تنگ دستی کے ہاتھوں موت کو گلے لگانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
کیونکہ ریاست مدینہ کے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اصل سکون تو قبر ہی میں ہے۔ اسی وجہ سے بلوچستان کے عوام زندہ لاش بن کر سکون کی زندگی گزار کر قبر کی ابدی سکون کیلئے دعا کرتے رہتے ہیں۔ بلوچستان کی بدحالی کا خاتمہ نہ تو اسٹیبلمشنٹ کی ترجیحات میں شامل ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتیں بلوچستان کی ترقی کو اون کر رہے ہیں۔ جب بلوچستان میں ووٹ کا تقدس نہ ہوگا جہاں لوگ سلیکٹڈ ہو کر وزیر بنیں گے ان کی ترجیحات عوام نہیں بلکہ سلیکٹرز ہی ہونگے۔ بلوچستان کی پسماندگی، عدم ترقی ،احساس محرومی کی ذمہ داری سلیکٹڈ سیاسی قیادت اور سلیکٹرز ہیں۔
بلوچستان میں جہاں عوام کے ووٹ کو اولیت دی جائے گی تو یقینا وہاں ووٹ سے ہی تبدیلی ہوگی وہاں ترقی کا نہ ختم ہونے والے دور کا آغاز ہو جائے گا چوہتر سالوں سے بلوچستان بدحالی کا شکار ہے اس کی ذمہ داری آج تک کوئی نہیں لے رہا ۔صوبے کی پسماندگی عدم ترقی اور بدحالی کا ذمہ دار قوم پرست جماعتیں پنجاب اور وفاق کوقرار دیتے ہیں؟ کیا ہمارے حکمران ،وزیر اور مشیر پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں؟ کیا ہمارے اپنے بلوچستانی قوم پرست ایم پی اے، ایم این ایز اور سینیٹرز نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر سب سے زیادہ بدحالی پسماندگی اور احساس محرومی سے دوچار وہی قوم پرستوں کے حلقے ہیں۔
جو پنجاب اور وفاق کو سب سے زیادہ گالیاں یا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ بلوچستان ملک کا اکلوتا صوبہ ہے جہاں نہ تو گورننس ہے اور نہ ہی ایگزیگٹو۔ کسی کو کچھ علم نہیں جس کا جس طرح جی چاہتا ہے اسی طرح ہی کرتا رہا ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ کرپشن بلوچستان جیسے صوبے میں ہوتا ہے آج تک کسی کرپٹ اور چوری کرنے والے کو سزا تک نہیں ہوئی ہے جہاں سزا وجزا نہ ہوگا وہاں کیونکر گورننس میرٹ ترقی اور خوشحالی ہوگی۔ بلوچستان میں صحت عامہ کی سہولیات کا فقدان ہے ،بلوچستان کے تعلیمی ادارے اور معیار باقی صوبوں سے پچاس فیصد پیچھے ہیں۔
پولیس اور لیویز مکمل سیاسی فورس بن چکے ہیں جہاں قاتل محفوظ اور آزاد جبکہ غریب اور متوسط طبقہ جیل وزندان اور مفلوج زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جہاں انسانی خون ارزاں اور قتل عام ہو وہاں انسانیت کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ بلوچستان کے نصیرآباد ڈویژن بلاشبہ صوبے کا گرین و سرسبز بیلٹ ہے جہاں سالانہ لاکھوں میٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہونے کے باوجود بلوچستان حکومت پاسکو سے گندم خریدنے پر مجبور ہے ۔بلوچستان کا گندم پابندی کے باوجود افغانستان پہنچ جاتا ہے سینکڑوں پولیس، لیویز اور ایف سی کی چیک پوسٹوں کے باوجود گندم کی اسمگلنگ ہماری گڈ گورننس کا منہ چڑا رہی ہے۔
بلوچستان کابینہ میں نصیرآباد ڈویژن سے آٹھ اراکین وزیر و مشیر ہیں وہ سب بڑے بڑے زمیندار اور جاگیردار ہیں لیکن شومئی قسمت ان کے ہوتے ہوئے بھی بلوچستان حکومت نے اب تک نصیرآباد میں گندم خریداری کے مراکز نہ تو قائم کیے ہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں جام کمال خان نے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔ آپ صوبے کی گڈ گورننس کا اندازہ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ صوبے کے تمام ملازمین احتجاج پر ہیں۔ حکومتی نظام درہم برہم ہو چکی ہے ملازمین اتحاد کی ہڑتال کے باعث حکومتی امور کے ساتھ ساتھ عوام بھی درپدر ہو رہی ہے ۔
لیکن صوبے کے پیش امام وزیر اعلیٰ ابھی تک ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ جس حکومت کی ترجیحات صوبے اور عوام نہ ہو وہ کیونکر عوامی مشکلات کیلئے سنجیدہ ہو سکے گا اب وقت کا تقاضا ہے کہ بلوچستان پر ایسے نااہل لیڈر مسلط کرنے والے اپنی پالیسوں کا جائزہ لیں، بلوچستان کے عوام کو ووٹ کی آزادی کا حق دیا جائے عوامی پسند اور ناپسند ہی بلوچستانی عوام کی قسمت بدل سکتی ہے بصورت دیگر بلوچستان بدحالی کا ایک ایسا گڑھ بن جائے گا جہاںسب اپنا سر پیٹ رہے ہونگے۔